اس میںکوئی شک وشبہ نہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس صیہونیوں کی آنکھوں کا خار ہے اور اس کی حیثیت ہی یہودیوں اورمسلمانوں کے درمیان تنازعے کی اصل جڑ ہے۔ اس تلخ حقیقت کا فہم وادراک کر تے ہوئے حال ہی میں امریکہ کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا1948 ء میں قیامِ اسرائیل سے لے کر اب تک ایسا کرنے والا پہلا ملک ہے ۔واشنگٹن اس عمل سے وہ یہ کہناچاہتاہے کہ بیت المقدس کوئی متنازعہ مقام نہیں اورنہ یہ مسلمانوں کا قبلہ ٔ اول ہے بلکہ یہودیوں کاہے۔ امریکی سفارت خانہ دیر سویر یروشلم منتقل کرنے کا مطلب اسرائیل کوبیت المقدس پراورالقدس کے اس سارے علاقے کا جائز حاکم تسلیم کرنا ہے۔واضح رہے کہ 21جنوری 1915کوبرطانوی سامراج کی کابینہ ہربرٹ سیموئل کامیمورندم ’’فلسطین کامستقبل‘‘پیش ہوا،اوراس کے بعدبینکاری اورسرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین یہودی منصوبہ ساز روتھ شیلڈ(Rothschild)نے 12جولائی 1917کوپہلاڈرافٹ تحریرکیااسی سال ماہ اگست میں برطانوی وزیرخارجہ بالفورنے اس کی نوک پلک سنوارکرکے اسے ’’ اعلانِ بالفور‘‘ یابالفور ڈیکلیریشن نام دے کرپیش کیااوراس کے ذریعے اس وقت کرہ ارض پرسب سے بڑی قوت سلطنت برطانیہ نے مسلمانوں کے سینوں میں خنجرگھونپ کر اسرائیل کے قیام کوممکن بنایا۔بنیای طورپریہ برطانوی سامراج کی صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا مقصد پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنا تھا۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفتر خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو 2 نومبر 1917 ء کوسلطنت برطانیہ کے وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھر پور اور عملی مدد دیں گے۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر 1917 کو ہو چکی ہے۔ اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔یہ معاہدہ، اعلان اور خط دو یہودیوں حاییم وائزمین جو بعد میں اسرائیل کا پہلا صدر بنااور ناہوم سوکولو کی متواتر کوششوں کا نتیجہ تھا جوسلطنت برطانیہ کے ہیڈکوارٹر لندن میں صیہونی یہودیوں کے نمائندے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کے دس لاکھ لوگوں کو وہاں سے نکال کر وہاں ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ اعلان بعد میں نہ صرف ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کا حصہ بھی بنا جب عثمانیہ سلطنت جنگِ عظیم اول ہار گئی بلکہ اس کو خفیہ طور پر وائزمین نے کچھ عربوں سے بھی منوایا جو اس زمانے میں اقتدار کی شدید ہوس میں مبتلا تھے اور اس کے لیے وہ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے سمیت کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔
اس طرح جب برطانوی سامراج نے اسرائیل کاقیام عمل میں لایاتوامریکہ نے اسرائیل کواپنابغل بچہ بناکر روزاول سے ہی اسرائیل کی سرپرستی کی ۔امریکہ نے جہاں فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے بے دخل کر کے’’ ریڈ انڈین‘‘ کا تجربہ دہرانے اور نیابھرسے یہودیوں کو لندن ،پیرس ،برلن ،اورنیویارک جیسے ماڈرن شہروںمیں اپنی اربوں ڈالرجائیدادیں،کاروباراورپرتعیش زندگی چھوڑنے کی ترغیب دے کرحیفہ اورتل ابیب کے ریگستانوںمیں آبادکرا کے اسرائیل کو ناقابل شکست طاقت کی حیثیت دینے کا برطانوی منصوبہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا،وہیں1948سے آج تک اسرائیل صرف اور صرف امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے تمام تر اخلاقی، سیاسی، اور قانونی تقاضوں کو رد کرتے ہوئے امہ مسلمہ کے سینے پرمونگ دہل رہا ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ کریہ حقیقت سامنے آئے گی کہ اسرائیل فلسطین تنازع کو ہوا دینے اور اسے موجودہ نہج تک پہنچانے میں سب سے خوفناک اورمجرمانہ کردار امریکہ نے ادا کیا۔ اس کی جانب دارانہ پالیسیوں کا رخ ہمیشہ اسرائیل کے حق میں رہا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف پیش کردہ قراردادوں کو سب سے زیادہ امریکہ نے ہی ہمیشہ ویٹو کیا اور اس طرح سرزمین فلسطین پر اس کے جبری اورناجائز قبضے کو دوام بخشا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ یہ امریکہ ہی ہے جس کی بھرپورعملی مددسے اسرائیل نے سینہ تان کا عربوں کودبوچ لیا،مستحکم ومضبوط ہوا،اورہر گزرتے دن کے ساتھ وسعت اختیار کرتاچلاجا رہاہے اور اب یہی امریکہ بیت المقدس میں سفارت خانہ قائم کرکے اس تنازع کو ایک نئے اور پیچیدہ موڑپرپہنچادیا۔واضح رہے کہ اسرائیل کاعوے ہے کہ وہ بیت المقدس کواپنادارالحکومت بناکرایک ایسی سلطنت قائم کرے گاجوفرات کی ساحلوں تک ہوگی۔جس میں اردن،شام ،قطر،بحرین ،کویت ،عرب امارات،یمن اورحجازمقدس تک آئیں گے ۔یہ ہریہودی کاعقیدہ ہے اوراس خواب کوپوراکرنے کے لئے دنیابھرکے یہودی ایک ایک کرکے اسرائیل پہنچ رہاہے ۔ہریہودی کاعقیدہ ہے کہ اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ اسکی حمتی لڑائی ہوگی جس کے بعدوہ مسجد اقصیٰ کومسمارکرکے ہیکل سلیمانی تعمیرکرکے اپنی سلطنت قائم کرے گا ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک اسرائیل اپنی سرحدوںکاتعین نہیں کرسکا۔
حالات بتارہے ہیں کہ امریکا کی بھرپور حمایت اور معاونت کے ساتھ اسرائیل اپنے عقیدے کے مطابق اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہاہے۔یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ جب سے امریکا نے اسرائیل کا سرپرست بن گیاتو امریکا نے اسٹریٹجک معاملات میں اسرائیل کے شراکت دار کی حیثیت اختیار کرلی، اور تب سے اب تک تعلقات کا تنوع بڑھتا ہی گیا ہے۔اسرائیل اس قدر چھوٹا ملک ہے کہ اپنے طور پر اس کے لیے کچھ زیادہ کرنا ممکن نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکا بھرپور معاونت نہ کرتا تو اسرائیل کے لیے خطے میں یوں بقا سے ہمکنار رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اسرائیل کی بھرپور معاونت کے حوالے سے جو کردار امریکانے ادا کیاتواسرائیل کوکسی ووسر ے یورپی ملک کے تعاون کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔امریکا نے اسرائیل کو سیاسی، سفارتی، عسکری اور اسٹریٹجک حمایت و مدد کے حوالے سے مایوس نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا بہت غیر تحریری نوعیت کے اتفاق رائے پر پہنچ گئے ، جس کے تحت امریکا اب تک ہر معاملے میں اسرائیل کی بھرپور مدد کرتا آیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل روس یا کسی اور ملک کی طرف دیکھنے سے اب تک گریز ہی کرتا آیاہے۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی ہر معاملے میں امریکا سے مشاورت کو لازم جانا ہے۔ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے امریکا سے پوچھنا اور اس کے مفادات کے حوالے سے احتیاط برتنا لازم گردانتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دونوں کے تعلقات میں گرم جوشی برقرار رہی ہے اور امریکا محسوس کرتا رہا ہے کہ اسرائیل عام طور پر اس کی مرضی سے ہٹ کر چلنا گوارا نہیں کرتا۔ ہر معاملے میں وہ امریکی پالیسی اور امریکی مفادات کو مقدم رکھنے کے حوالے سے تساہل سے کام نہیں لیتا ۔ اسرائیل نے کسی بھی بڑے فیصلے میں اب تک امریکا کو نظر انداز نہیں کیا۔ 1968میں عرب دنیا سے جنگ شروع کرنے سے قبل اسرائیل نے امریکی قیادت سے مشاورت کی تھی اور اس وقت کے امریکی صدر لنڈن جی جانسن نے اسرائیل کوگائیڈلائن فراہم کی تھی ۔ 1973میں ایک مرحلے پر اسرائیل نے مصر اور شام پر حفظ ما تقدم کے اصول کے تحت حملے کی ٹھان لی تھی مگر پھر آخری لمحات میں یہ فیصلہ بدلنا پڑا کیوںکہ بوجوہ امریکا نے گرین سگنل نہیں دیا تھا۔ اسرائیل نے 1982میں لبنان پر حملے سے قبل بھی امریکا سے مشاورت کی۔ 1991میں عراق کی طرف سے میزائل حملوں کے باوجود اسرائیلی فوج کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں تھی کہ امریکا نے اسے ایسا کرنے سے روکا تھا۔ 2006میں امریکا نے اسرائیل کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف عسکری کارروائی کے دوران سویلین انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچانے سے باز رہے گا۔
یہ بین حقیقت ہے کہ دونوںامریکہ اوراسرائیل اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔یہ بات امریکی صدورکے وردزبان رہی کہ’’ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کا رابطہ مشترکہ اقدار کی بنیاد پر، خاندان کے مراسم کی طرح ہے، چونکہ ہم اس یہودی ریاست کو اپنا سب سے اہم ترین اتحادی تسلیم کرتے ہیں‘‘۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے یہ کہتے ہوئے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ وسیع تر فوجی تعاون اورعسکری امدادجاری رکھاکہ’’ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بات یقینی بنائیں کہ اسرائیل کو پوری صلاحیت میسر ہو جو اسرائیلی عوام کو محفوظ بنانے کے لیے درکار ہے‘‘۔اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے امریکا کے کردار اور اہمیت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل کو جب بھی خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے تب امریکا ہی اس کے لیے سب سے پہلا ملک ہوتا ہے جس کی طرف وہ اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے دیکھتا ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں اسرائیل نے امریکا ہی کو آواز دی ہے اور امریکا ہی نے اس کی بھرپور مدد بھی کی ہے۔ اسرائیل کی پرورش کابیڑااٹھارکھنے اوراسکی سلامتی یقینی بنانے سے متعلق ہر طرح کے مباحثے اور کسی بھی فورم کے مذاکرات کے حوالے سے امریکا ہی مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔امریکا اور اسرائیل کا خصوصی تعلق کم و بیش چار عشروں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے عوض امریکا نے اسرائیل سے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ بھی کچھ کم نہیں امریکیوں کے نذدیک اس قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا پر اسرائیل کا انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یہ امرمتفق علیہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل دوقالب یکجان ہیں۔
امریکا نے اسرائیل کو 1949میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر عسکری اور اقتصادی امداد کی مد میں125 ارب ڈالر دیئے ہیں۔ امریکا نے اسرائیل کو دس سالہ معاہدے کے تحت تک مزید امداد دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس معاہدے کے اختتام پر اسرائیل کے لیے امریکا کی مجموعی امداد کم و بیش180 ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں امریکا سے سب سے زیادہ امداد وصول کرنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل کے لیے اسلحے کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ صرف امریکا ہے۔ اسلحہ تیار کرنے اور بیچنے والے دیگر ممالک فرانس، برطانیہ، روس اور چین میں سے کوئی بھی امریکا کی جگہ نہیں لے سکتا۔چند برسوں کے دوران امریکی امداد اسرائیل کے بجٹ کا تین فیصد اور قومی آمدن کا ایک فیصد رہی ہے۔ان اعدادوشمارکے پیش نظرکوئی دوسراملک فنڈنگ اور اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے اسرائیل کے لیے وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو امریکا کو حاصل ہے۔ امریکا ریاستی عہد کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو ہرحال میں یقینی بنائے اور اسرائیل کے لیے ایسے ہتھیاروں کا بندوبست کرے جوبقول امریکہ کے اسے تمام دشمنوں کو ناکارہ بنانے کے لیے انتہائی کافی ہویہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو امریکی حمایت پربھرپوراعتمادہے اوروہ امریکی سرپرستی کے باعث شانت ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو جدید ترین اور اپنی نوعیت کے سب سے منفرد میزائل دیئے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا نے اسرائیل کو سائبر آپریشنز میں بہترین اشتراکِ عمل کی مشق بھی کرائی۔امریکا نے اسرائیل کو گلوبل سیٹلائٹ میزائل لانچ سرویلنس سسٹم کا لنک بھی دے رکھا ہے، جس کی مدد سے اسرائیل کو کسی بھی بڑے میزائل حملے کا کئی منٹ پہلے علم ہوسکتا ہے اور یوں وہ شہریوں کو الرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو لڑنے کی بہترین پوزیشن میں لاسکتا ہے۔امریکا نے اسرائیل کو مشترکہ جنگی مشقوں کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ کئی بار ایسی مشقیں بھی کرنے کو ملی ہیں، جن میں امریکا سمیت کئی ممالک کی مسلح افواج شریک تھیں۔ یوں اسرائیل کو دفاع کے جدید ترین طریقے سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی افواج سے تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع تر کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔امریکا نے اسرائیل میں بہت بڑے پیمانے پر ہتھیار اور گولا بارود بھی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ اس ذخیرے کے محض ایک حصے تک اسرائیل کو رسائی حاصل ہے۔ دونوں ِ اسلحہ سے متعلق سرگرمیوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ اسٹریٹجک معاملات پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان غیر معمولی تعلق وربط ہے۔ماضی قریب میں لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کو ناکام بنانا اسی ربط وارتباط کاشاخسانہ ہے ۔
اسرائیل کاسفارتی امور میں امریکا پر اس کا انحصار انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس نے اسرائیل کو عالمی اور علاقائی تنظیموں میں قبولیت دلانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یورپ میں تعاون کی تنظیم اور دیگر ورکنگ گروپس میں اسرائیل کے لیے قبولیت پیدا کرنے میں امریکا کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔سفارتی سطح پر بھی جوکردار اسرائیل کے لیے امریکا ادا کرتا آیا ہے، وہ ایک بھیانک داستان ہے۔ ہر بین الاقوامی فورم پر اسرائیل کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ امریکا نے بہت سے بین الاقوامی اداروں میں اسرائیل کو امن عمل، عسکری اور سفارتی اقدامات اور جوہری پروگرام کے حوالے سے قراردادوں اور اقدامات سے بچانے میں شیطانی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کو’’ویٹو پاور ‘‘کے ذریعے مختلف قراردادوں اور پابندیوں سے جس قدر بچایا ہے اتنا کسی بھی بڑی طاقت نے کسی اور ملک کو نہیں بچایا ہوگا۔ امریکا نے کبھی کبھی اسرائیل کو ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں سے بچایا ہے، جن سے خود اسے بھی اتفاق نہیں تھا۔ 1952سے 2011تک امریکا نے اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی 20قراردادوں کو ویٹو کیا۔علاقائی سطح پر اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے میں بھی امریکا پیش پیش رہا ہے۔ اس نے اردن اور مصر سے سفارتی اور دیگر روابط کے قیام میں اسرائیل کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خلیجی ممالک اور شمالی افریقا کے خطے میں بھی اسرائیل کے لیے راہ ہموار کرنے میں امریکی قیادت پیچھے نہیں رہی۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایا جائے اور اس کے حوالے سے پائی جانے والی مخاصمت کا گراف نیچے لایا جائے۔ اسی حوالے سے امریکا نے مصر اور اردن میں کوالیفائنگ انڈسٹریل زون کے قیام کی راہ ہموار کی، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے لیے ان دونوں ممالک سے بہتر معاشی روابط قائم رکھنا ممکن ہوسکا۔اسرائیل کی معیشت کومستحکم بنانے میں امریکا آج بھی اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس پس منظرمیںتقریبا تمام ہی معاملات میں امریکا کی طرف دیکھنا اسرائیل کی مجبوری رہا ہے۔
المختصر!ٹرمپ نے بیت المقد س کو اسرائیل کادارلحکومت تسلیم کیاجاناقطعی طورپرانہونی نہیں کیونکہ امریکہ اوراسرائیل ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔البتہ مسلم امہ پرمسلط عیاش حکمرانوں کوکون یہ بات سمجھاسکے کہ وہ اپنی گردنوں سے امریکی غلامی کاطوق اتارپھینک کرچین کے ساتھ کھڑے ہوجائیں مسلمان عظمت رفتہ کی بحالی کاشائدنقطہ آغازہوگا۔دیکھایہ گیاہے کہ مسلمانوں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے چین کبھی سدراہ نہیں بنابلکہ مسجداقصیٰ کوجب ٹرمپ نے اسرائیل کااراحکومت تسلیم کیاتوچین نے سب سے پہلے اس اقدام کی شدیدمذمت کی ۔کوئی عجب نہیں ،مسلمانوں اورشعائراسلام پرامریکی اوراسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لئے اس وقت امت مسلمہ کے لئے چین شاہ حبشہ کاکرداراداکرسکتاہے۔