امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے میں یروشلم کو یہودی ریاست کا دارلخلافہ مانا گیا ہے۔ یہ فیصلہ عالمی برادری کی اکثریت مطلق کے سیاسی و سفارتی نظریے کے خلاف ہے۔ امریکیسربراہ حکومت ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ فیصلہ کس پس منظر میں لیا اُسے پرکھنے کیلئے نہ صرف عصر حاضر پہ ایک عمیق نظر ڈالنے کی ضرورت ہے بلکہ تاریخ کے اوراق کو بھی پلٹنا ہو گا۔یہ عیاں ہے کہ یروشلم جسے مسلمین احترام و تقدس سے بیت المقدس یا قدس شریف کے ناموں سے پکارتے ہیں کا تاریخی پس منظر اِس قدر وسیع ہے جو شاید ہی کسی اور مقام، کسی اور شہر سے قابل مقایسہ ہو۔یہاں پس منظر میں نہ صرف مختلف ادوار کی سیاست ہے بلکہ مذہبی،لسانی و ثقافتی نقوش بھی ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اطوار و طور و طریقے سے انتہا پسند سفید فام ہی سہی البتہ یہ بعید ہے کہ اُن کے فیصلے کے پس پردہ سیاسی فوائد کی ایک فہرست نہ رہی ہو جن میں انتہا پسند عیسائی مذہبی فرقوں کی حمایت کو اپنے سیاسی منصوبوں کے ساتھ باندھے رکھنے کو مد نظر نہ رکھا گیا ہو۔اِس سے بھی بڑی وجہ امریکی یہودیوں کی حمایت کا حصول ہے جو نہ صرف امریکی اقتصادیات پہ حاوی ہیں بلکہ مطبوعاتی حلقوں میں بھی اُنکا اثر ایک مانی ہوئی بات ہے۔انتہا پسند عیسائی مذہبی فرقوں کے نظریے اور امریکی یہودیوں کے طرز فکر کے پس منظر میں کیا محرکات ہیں اُسے سمجھنے کیلئے ابراہیمی ؑ مذاہب کی تاریخ کو جانچنا ہو گا ۔
یروشلم میں یہودی ،جنہیں لسانی زاویہ نگاہ سے عبرانی کہا جاتا ہے ،مصر میں خروج کے بعد بسنے لگے۔مصر میں وہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں کنعان سے منتقل ہوئے تھے۔نقل مکانی و مہاجرت کی وجہ کنعاں میں قحط زدگی کی حالت تھی۔مصر میں سکونت کی اجازت اُنہیں حضرت یوسف ؑ کی وساطت سے ملی جو ایک تاریخی حادثے سے مصر کے حاکم بنے تھے جبکہ وہ خود بھی کنعاں کے رہنے والے تھے۔حضرت یوسف ؑ کیسے حاکم مصر بنے وہ قران کریم میں صورہ یوسف ؑ میں عیاں ہے لہذا قارئین محترم کیلئے واقعات و حادثات کا ایک لمبا سلسلہ واضح ہے ۔مصر میں عبرانیوں کاقیام کم و بیش چہار سو سالوں پہ محیط رہا ۔اُن کی آبادی بڑھنے لگی اور فرعونوں کے دور حکومت میں مصریوں میں یہ احساس بڑھنے لگا کہ کہیں عبرانی تعداد میں اُن سے زیادہ نہ ہو جائیں ۔فرعونوں کے مظالم بڑھنے لگے جن میں بیگار بھی شامل تھی۔ حضرت موسی ؑ حکم خداوندی سے اُن کو فرعونوں کے مظالم سے آزادی دلوانے کا سبب بنے اور صحرائی سینا کو عبور کر کے یہودی یروشلم میں سکونت پذیر ہوئے۔
یروشلم میں سکونت کے بعد یہودیوں کو ایک بادشاہ کی ضرورت کا احساس ہوا اور طالوت اسرائیلی سلطنت کے پہلے بادشاہ بنے ۔اُنکی ریاست شمالی حصوں تک محدود تھی اور شمالی اسرائیلی ریاست نامیدہ گئی۔ طالوت کے بعد شمالی اسرائیلی ریاست کے جو بادشاہ بنے وہ نبی ؑ بھی تھے یعنی حضرت داؤد ؑ جنہیں جنوبی حصوں کو شمال سے ملانے کا شرف حاصل ہوا اور ایسے میں فلسطین میں متحدہ اسرائیلی سلطنت کی بنیاد ڈالی گئی۔ حضرت داؤدکے بعد حضرت سلیمان ؑ کو نبی ؑ اور بادشاہ بنے۔اُن کے دور حکومت میں یروشلم میں ایک عبادت گاہ بنی جسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔ یہ یہودیوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔
حضرت سلیمان ؑ کا دور حکومت یہودی سلطنت کا عروج تھا۔زماں بعدی میں فرقہ واریت یہودیوں میں تفرقے کا سبب بنی اور اِس تفرقہ اندازی کی حالت میں یہودی رومیوں کے غلام بنے۔رومیوں کی سلطنت بحیرہ متوسط کے اُس پار روم میں وجود میں آئی اور یہ ایک ایسا دور تھا جس کے بارے میں یہ ضرب المثل کہ سارے راستے روم کو جاتے ہیں(All roads lead to Rome) روش زمانہ کی نشاندہ ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جہاں بحیرہ روم کے آر پار اُس زمانے کی مہذب سلطنتیں رومیوں کے تابع تھیں حتّی کہ عظیم یونانی ریاست بھی جہاں علوم اور منطق کی بنیاد پڑی۔پورے عالم میں بس ایرانی شہنشایت تھی جو رومی سلطنت کے ہم پلہ تھی۔رومی سیاسی طاقت میں گر چہ بلند و بالا تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ آرٹ یعنی فن سے نا بلد تھے (Rome knows no art)فن کے ساتھ ساتھ رومی مذاہب سے بھی نا آشنا تھا۔اُن کا اعتقاد اپالو اور زئیس جیسی خیالی آسمانی علامتوں پہ مبنی تھا۔
رومیوں کے دور حکومت میں حضرت عیسٰی ؑ کا ظہور ہوالیکن گنے چنے حواریوں کے بغیر یہودیوں نے اُن کی پیغمبری کو ٹھکرا دیا حالانکہ اُن کی مقدس کتابوں میں یہ درج تھا کہ مسیح ؑ کا ظہور حضرت داؤد ؑ کی 14ویں نسل سے ہو گا ۔یہودیوں کے یوم مقدس پہ یروشلم میں حضرت عیسی ؑ نے ہیکل سلیمانی کے مذہبی مقام پہ یہودی کاہنوں کے بیجا رسوم و رواجوںکے خلاف کھل کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔اُنہوں نے سکوں سے بھرے نظرانے کے تھال الٹ دئے اور قربانی کے بھیڑ جو کہ کٹہرے میں تھے آزاد کئے حالانکہ تین سال دور پیغمبری میں اُنہوں نے پیغام اللہی کی نرم و گداز لہجے میں ترجمانی کی تھی۔یہودی کاہن اُنہیں گھسیٹتے ہوئے رومی گورنر پونٹیس پائلیٹ (Pontius Pilate) کے دربار میں لے گئے جو یہودی مذہبی تعطیل کے سبب نشے میں تھے۔ یہودی کاہنوں نے مذہب سے بغاوت کا مقدمہ پیش کیا جبکہ حضرت عیسی ؑ ؑنے خدا کی بادشاہی کی بات کی۔رومی مذہبی امور سے نا آشنا تھے ویسے بھی شراب کے نشے میں دھت ہونے کے سبب رومی گورنر کچھ سمجھ نہ سکا پس اُس نے پانی سے بھرا برتن منگایا اور اُس میں اپنے ہاتھ دھوئے جس کا یہ مفہوم تھا کہ وہ اُن کے سامنے پیش کردہ مقدمے سے اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں یعنی لا تعلق ہو رہے ہیں ۔یہودی کاہنوںنے جو مانگا وہ اُنہیں مل گیا یعنی صلیب پہ موت لیکن حکم اللہی کے بموجب حضرت عیسی ؑ کو اُس سے پہلے ہی آسمانوں پہ اٹھا لیا گیا۔
حضرت عیسی ؑ کے زمانے کے چہار سو سال بعد عیسائیت کو قسطینطنیہ میں سرکاری مذہب ہونے اعزاز حاصل ہوا جب کہ کانسٹن ٹائن (Constantine) بادشاہ تھا ۔سینٹ پال (St. Paul) نے اِس زمانے میں عیسائیت کو نئی ترتیب دی۔فلسفہ تثلیث اور کفارہ کو منظر عام پہ لایا گیا ۔ فلسفہ تثلیث میں خدا، مسیح اور روح القدس کی بات سامنے آئی اور کفارہ میں یہ کہا گیا کہ گناہ کی صورت میںاِسے قبول کرنے سے کفارہ ادا ہو سکتا ہے چناچہ گناہ کرنے کی گنجائش رکھی گئی۔سینٹ پال یہودی پیدا ہوا لیکن عیسائیت قبول کرنے اور اُسے نئی ترتیب دینے کے بعد اُس نے یہودیوں سے بد ترین سلوک روا رکھنے تلقین کی چناچہ طلوع اسلام سے قبل یہودی مذہب کے پیروکار عیسائی ریاست کے سیاسی و مذہبی عتاب کا شکار ہوئے ۔اِس حالت زار سے مسلمانوں نے فتح شام کے بعد یہودیوں کو نجات دی۔جب کچھ دیر کیلئے جنگی دباؤ کے تحت جیش مسلمین کو دمشق چھوڑنا پڑا تو کہا جاتا ہے کہ یہودی رو پڑے۔جیش مسلمین نے جلد ہی دمشق واپس حاصل کیا اور یہودی آرام و آسائش سے رہنے لگے ۔مسلمین نے اپنے دور عروج میں ہمیشہ ہی مسیحی و یہودی برادری سے بہترین سلوک روا رکھا چونکہ اہل کتاب کو ابراہیمی ؑ مذاہب کے پیرو کار ہونے کا شرف حاصل تھا لہذا مسلمین نے اُنہیں کبھی غیر نہیں سمجھا۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں وہ بیت المقدس میں ایک گرجا گھر کی سیڑھیوں پہ کھڑے تھے کہ اذان کی آواز سنائی دی۔عیسائی پادریوں نے اُنہیںاُدھر ہی نماز ادا کرنے کی پیش نہاد کی لیکن اُنہوں نے یہ پیشکش یہ کہہ کے رد کی کہ آنے والے وقتوں میں مسلمین اِس مقام کو مقدس تصور کرتے ہوئے بین المذہبی تضاد کا سبب بن سکتے ہیں از اینکہ کہ خلیفہ المسلمین نے اِس مقام پہ نماز ادا کی ہے۔یہ وہ وقت تھا جب کہ قرون اولٰی کے مسلمین نے بیت المقدس کو فتح کیا تھا لیکن اسلامی تلقین یہی تھی کہ مسلمین خود کو فاتح اور اقوام دیگر کو مفتوح نہ سمجھیں بلکہ اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ وہ ملک گیری کے جذبے سے نہیں بلکہ دین اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ایک عالمی مہم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔اپنے اعمال سے قرون اولٰی کے مسلمین سے اقوام عالم کے دل جیت لئے اور جوق در جوق اقوام عالم مسلمین کی صفوںمیں شامل ہوئے ۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے رویے سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ وہ بیت المقدس کو اہل کتاب کا مشترک سرمایہ مانتے تھے از اینکہ ابراہیمی ؑ کے مذاہب کے مقدس مقامات یہاں واقع ہوئے ہیں ۔ تاریخ کے اُن ادوار میں جہاں مسلمین بیت المقدس کے حکمراں رہے ابراہیمی ؑ مذاہب کے پیرو کاروں کے سیاسی حقوق، مذہبی امور و ثقافتی قدروں کا احترام ایک واجبی امر رہا لیکن جن ادوار میں مسیح برادری کی حکومت رہی وہ ادوار مسلمین پہ سخت گذرے ۔ایسا ایک دور صلاح الدین ایوبی سے پہلے وقوع پذیر ہوا لیکن تاریخ کے اِس بہادر سپاہی نے یروشلم کو دوبارہ فتح کیا اور اپنے وسیع القلب اقدامات سے ایک بار پھر دور فاروقیؓ کی یاد تازہ کی۔عصر حاضر کی تاریخ میں سفید فام یورپی یہودیوںکی فلسطین میں آمد سے پہلے یہاں مسلمین،عیسائی اور ایشیائی یہودی امن و آشتی سے رہ رہے تھے لیکن صہینیوں کی تسلط آمیز روش نے پچھلی صدی سے امن و آشتی کے اِ س گہوارے پہ شبخوں مارا۔فلسطین کی موجودہ حالت صہینیوں کی تاج برطانیہ کے ساتھ گہری سازش کا نتیجہ ہے جس میںترکی کی عثمانی خلافت کے وزیر طلعت اور شریف حسین آف مکہ بھی ملوث رہے۔یہ سازش جنگ جہانی اول کے دوراں رچی گئی جب برطانیہ کے جنرل ایلن بی (Allenby) نے فلسطین کو فتح کیا۔ ایلن بی نے کہا تھاکہ آج صلیبی جنگوں کی تکمیل ہوئی۔اِس فتح کے بعد وزیر طلعت کی وساطت سے برطانیہ کو فلسطین کا منڈیٹ حاصل ہوا اورتاج برطانیہ کو فلسطین پہ دسترس حاصل ہوئی۔
1917ء میں نومبر کی دو تاریخ کو برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر خارجہ) آرتھر جیمس بالفور کی جانب سے ایک مکتوب برطانوی یہودیوں کے رہبر والٹر راتھ چائلڈ کے نام ارسال ہوا جو در اصل انگلیڈ اور آئر لینڈ کی صہیونی کونسل کیلئے برطانوی سرکار کی جانب سے یہ اعلانیہ لئے ہوئے تھا کہ برطانوی سرکار فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک نیشنل ہوم یعنی ایک ریاستی اقامت گاہ کی تشکیل کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور برطانوی سرکار اپنی بہترین صلاحیتیں اِسے ممکن بنانے کیلئے برؤے کار لائے گی ۔وزن شعر کیلئے برطانوی مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائیگا جس سے غیر یہودی آبادی کے شہری و مذہبی حقوق سلب اوردوسرے ممالک میں یہودیوں کا سیاسی تشخص و حقوق متاثر ہوں۔یہ اعلانیہ جسے ایام بعدی میں بالفور ڈیکلریشن کا عنواں دیا گیا یورپی سفید فام یہودیوں کیلئے کی فلسطین میں باز آباد کاری کیلئے ایک ایسا پروانہ ثابت ہوا جس سے بالفور اعلامیہ کی یقین دہانی کے برعکس غیر یہودی آبادی کے شہری و مذہبی حقوق سلب ہو گئے۔ 1947/48ء تک یہودی ریاست کا قیام یقینی بنایا گیا اور 1967ء کی جنگ کے بعد حضرت داؤد ؑ کی متحدہ اسرائیلی ریاست وجود میں آئی جس میں یروشلم کے علاوہ رود اردن کا مغربی کنارہ شامل ہوا یا وہ علاقہ جو مغربی کنارے پہ آباد ہے ۔اِس کے علاوہ غازہ کی پٹی پر بھی اسرائیل قابض ہوا۔ مغربی کنارے پہ فلسطینی انتظامیہ کے اختیارات ایک میونسپلٹی کے اختیارات تک محدود ہیں جبکہ مغربی کنارہ ہو یا غازہ کی پٹی سیکورٹی کاملاََ اسرائیل کی دسترس میں ہے چاہے وہ زمینی راہرو ہو ،فضائی یا سمندری یہ علاقے مکمل اسرائیلی ناکہ بندی میں گذر بسر کر رہے ہیں۔
صہیونی تسلط آمیزی کا جو آغاز 1917ء میں بالفور اعلامیہ سے ہوا تھا اُسے بیتے ہوئے ایک صدی گذر چکی ہے اور اِس اعلامیہ کی تکمیل میں جو کمی رہ گئی تھی وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اِس اعلامیہ سے پوری ہو گئی کہ یروشلم غاصب اسرائیل کا دارلخلافہ ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ کا اعلامیہ اِس حقیقت کے باوجود منظر عام پہ آیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے تسلط کو نہ ہی رود اردن کا مغربی کنارے پہ تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی غازہ پٹی ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو یہ قبول ہے کہ یروشلم بلا شرکت غیرے اسرائیل کا دارلخلافہ بنے ۔اِس حقیقت کے باوجود یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ ماننا تسلط آمیزی کی انتہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جہاں سفید فاموں کے نسلی تسلط کے علم بردار ہیں وہی عیسائیت کے انتہا پسند حلقوں کے طرفدار بھی اور اُنکی رہبری میں صہیونیت اور عیسائیت کے انتہا پسند حلقوں کا یہ اشتراک اِس تاریخی حقیقت کے باوجود منظر عام پہ آیا کہ جن ادوار میں بھی یہودیوں کو موقعہ ملا اُنہوں نے عیسائیت کو زک پہنچانے میں دریغ نہیں کیا اور عیسائیت کے عروج میں سینٹ پال جیسے مذہبی عیسائی رہبروں نے یہودیوں پہ مظالم کی انتہا کی جبکہ مسلمین کے دور عروج میں چاہے وہ دور فاروقی ؓ تھا یا صلاح الدین ایوبی کا دور یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھا گیا۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ دنیا کو ہمیشہ ہی یہودی سوال کا سامنا رہے گا بہ معنی دیگر یہودی ہمیشہ ہی اقوام عالم کیلئے درد سر بنے رہیں گے۔تاریخ کے ہر دور میں یہ حقیقت عیاں رہی ہے قوم یہود نہ ہی خود آرام سے رہتی ہے نہ ہی دوسروں کو آرام سے جینے دیتی ہے۔آج بھی کچھ ایسا ہی سماں ہے۔عبرانی ، یہودی بننے سے پہلے اور یہودی بننے کے بعد کبھی بابل سے رسوا ہو کے نکالے گئے، کبھی مصر سے خروج میں حضرت موسی ؑ کو اُنکا نجات دہندہ بننا پڑا ،کبھی وہ یروشلم سے نکالے گئے اور کبھی بازنطینی سلطنت میں مسلمین اُنکو عیسائیوں کے عتاب سے بچا لائے۔عصر حاضر میں یورپی اقوام یہودیوں کے اقتصادی استبداد کا شکار ہوئے یہاں تک کہ یورپی رہبراں کو اُنکے لئے فلسطین میں نیشنل ہوم کی تلاش کرنی پڑی اور انجام کار یہودی اثر رسوخ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ منوایا البتہ چونکہ اِس قوم کی لالچ کی کوئی حد نہیں اُسے دیر یا سویر رسوائی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور تاریخ ہمیشہ ہی دہرائی جاتی ہے۔
Feedback on:[email protected]