رئیس احمد کمار
جموں کشمیر کی وادی چناب بلند و بالا پہاڑوں، وسیع گھاس کے میدانوں اور صاف شفاف آبی ذخائر کے درمیان بسی ہوئی ہے۔ اس کی خوبصورتی شاندار ہے، جو مقامی اور غیر مقامی آبادی دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس خطہ کی ادبی تواریخ صدیوں پر محیط ہے۔ نامور شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، گلوکاروں اور دانشوروں کو پیدا کرنے سے یہ بات بلاشبہ عیاں ہے کہ اس زرخیز سرزمین کو خدائی نعمتوں سے نوازا گیا ہے۔ رسا جاودانی، غلام نبی ڈولوال، بشیر بھدرواہی، راشد جہانگیر اور ولی محمد اسیر کشتواری، اس کے چند ادبی ستارے ہیں، جن کا قلم کئی دہائیوں سے جذباتی اور ثقافتی موضوعات کو صفحہ قرطاس پر لا رہا ہے۔ عصر حاضر میں بھی نئے چہرے اپنی شاعری اور نثری تحریروں کے ذریعے اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی معاصر ادبی شخصیات میں الطاف کشتواری کا نام بھی ایک ہے۔1963 میں ناخواندہ مگر ایک ہمدرد اور عاجز والد کے ہاں پیدا ہوئے جو پیشے کے اعتبار سے لوہے کا کام کر تے تھے، الطاف کشتواری پولیس محکمے میں اپنے خدمات انجام دے چکے ہیں اور اپنی سروس کے دوران انہوں نے سینکڑوں نظمیں، غزلیں وغیرہ لکھی ہیں جو مجموعے کی شکل میں منظر عام پر آئیں۔ ’’سحر سراغ‘‘ جو 2023 میں منظر عام پر آیا ہے 364 صفحات پر محیط یہ شعری مجموعہ تفہیم پبلی کیشنز راجوری نے شائع کیا۔ اس کا سرورق دیدہ زیب ہے اور مصنف نے اپنی والدہ، شریک حیات، تین بیٹوں اور اکلوتی بیٹی کی نظر کیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر کوثر مظہری الطاف کشتواری کی غزلوں پر تفصیلی نوٹ لکھتے ہوئے شاعر کی ادبی مہارت کو سراہتے ہیں۔ ان کے بقول الطاف کشتواری نے زندگی میں جو کچھ محسوس کیا ہے اسے شاعری کا جامہ پہنا کر قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ الطاف کے چہیتے بیٹے احمد توصیف نے اپنے والد کی ادبی صلاحیت کے بارے میں ایک بصیرت افروز مضمون لکھا ہے۔ انہوں نے ایک ادیب کی خوبیوں کو شمار کیا ہے، ایک دور اندیش انسان سے لے کر قاری کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے تک، توصیف کے مطابق ایک مصنف کا مرکز کبھی فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ معاشرے کو مخاطب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایک ادیب دوسرے لوگوں کے برعکس معاشرتی برائیوں اور آلودگیوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کی خواہش جاری رکھتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کے والد میں کسی بھی ادبی ہنر یا خوبی کی کوئی کمی نہیں ہے، جو ایک تجربہ کار اور ماہر شاعر میں موجود ہوتی ہے۔ معاشی طور پست خاندانی پس منظر کے باوجود اس نے اپنے ادبی کارناموں کو نئی جہت بخشی ہے اور ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان بنائی۔ الطاف کشتواڑی اپنا ادبی سفر شروع کرنے سے پہلے پینٹنگ اور ڈرائنگ میں خود کو مصروف رکھتے تھے بعد میں ان کا ذہن شاعری کی طرف مائل ہونے لگا۔ ملازمت کے دوران پیرپنچال علاقے میں تعینات رہتے ہوئے موصوف قابل اور ماہر شاعروں سے شاعری کے بارے میں لازمی اور مطلوبہ مشورے حاصل کرتا رہا۔ اپنے بیان میں انہوں نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس مجموعہ کو مرتب کرنے میں کسی نہ کسی طریقے سے ان کی مدد کی ہے۔ ایک عقیدت مند مسلمان ہونے کے ناطے الطاف کشتواری نے اس کتاب میں سب سے پہلے حمدیہ کلام پھر نعت شریف کو جگہ دی ہے۔ اس کے بعد بابا فرید الدین ؒ پر منقبت لکھی گئی ہے۔ الطاف کشتواری کی شاعری کا انداز منفرد ہے اور اس کے الفاظ کا استعمال اس کی یادداشت اور شاعرانہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ غزل کے مصروں میں کسی لفظ یا فقرے کو شامل کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔ لفظوںکو تولنے کے تو ازن ہے الگ، نسوار کسے تولیں وہ سامان ہے الگ۔ اس خوبصورت شعر کے ذریعے وہ قاری کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ الفاظ جو بات چیت کے دوران انسان بولتا ہے وہ ان چیزوں کی طرح نہیں ہوتے جنہیں ہم روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت ان کا وزن اور پیمائش بھی مختلف ہوتی ہے۔ حمد، نعت اور دو سو غزلوں پر مشتمل یہ مجموعہ قاری کو بہت کچھ سیکھنے کے لیے مہیا رکھتا ہے۔
میں تنہا تھا تنہا ہوں اکیلا ہی رہوں گا اب
ترا شیشے کا برتن ہوں میں ٹوٹا ہی رہوں گا
تنہایوں اور غموں میں ڈوبا ایک انسان کس طرح اپنی روداد سنا سکتا ہے، موصوف نے شاعری کا جامہ پہناکر غزل کی صورت میں وہی دکھانے کی کامیاب اور بھرپور کوشش کی ہے۔
ہوسکے تو وہی حالات مجھے لوٹا دو
میرے کھوئے ہوئے دن رات مجھے لوٹا دو
شاعر اپنے ماضی کی طرف جب نظر دوڑاتا ہے تو اسے پچھتاوا کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کا ماضی اس کے حال سے کہیں بہتر نظر آتا ہے اس لئے آج بھی وہ اپنے گزرے ہوئے دن رات واپس لوٹانا چاہتا ہے مگر ایسا ممکن ہی نہیں ہے، اس لئے وہ دل رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے ہمعصر شاعروں کی جب بھی بات کی جائے گی الطاف کشتواڑی کی شاعری اور ان کے ادبی خدمات کو ضرور سراہا جائے گا کیونکہ ان کی شاعری میں ہر قسم کا رنگ اور منفرد لہجہ خوب جھلکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مجموعہ قارئین کو پسند آئے گا۔
[email protected]