محمد اسماعیل وانی
گاؤں کا نام “بستی نوراں” تھا۔ وہاں ایک درمیانی طبقے کا خاندان آباد تھا جس کے سربراہ قادر صاحب تھے۔ قادر ایک سادہ، محنتی اور روایتی شخص تھا۔ اُس کی بیٹی، لیلیٰ، ایک خاموش طبع مگر باوقار اور باشعور لڑکی تھی۔ لیلیٰ جوان ہو چکی تھی اور دل میں کسی سے رشتہِ محبت جوڑ بیٹھی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ باعزت طریقے سے اپنے والدین سے بات کرے اور اپنی پسند کی شادی کا ذکر کرے مگر گاؤں کے ماحول، روایات اور باپ کے غصے سے خائف تھی۔
ایک دن، لیلیٰ نے ہمت کر کے اپنے والد قادر سے اپنی خواہش بیان کی۔ قادر پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس کے لئے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ اُس کی بیٹی اپنی مرضی کی شادی کی بات کرے۔ وہ فوری طور پر پریشان ہوا اور معاملے کو سلجھانے کے لئے اپنے بھائی بابر سے بات کی۔ دونوں بھائی فیصلہ کرتے ہیں کہ معاملے کو صبر اور حکمت سے حل کریں گے۔
قادر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایک صبح قریبی نائی، رحیم کے پاس جاتا ہے۔ داڑھی بنوانے کے دوران وہ بے ساختہ اپنے دل کی بات رحیم کو سنا دیتا ہے۔ وہ بس ایک ساتھی انسان سے ہمدردی چاہتا تھا، کوئی حل نہیں مانگا تھا مگر رحیم، جو گاؤں بھر کے مردوں کی باتوں کا امین سمجھا جاتا تھا، خاموش تو ہو گیا، مگر دل میں یہ “خبر” محفوظ کر لی۔
قادر کے جانے کے بعد جیسے جیسے گاہک آتے گئے، رحیم نے یہ راز ایک ایک کر کے سب کو بتا دیا۔ محلے میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ “قادر کی بیٹی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے!یہ جملہ گاؤں کی گلیوں میں گونجنے لگا۔ باتیں رنگ بدلتی گئیں اور بات بات میں نمک مرچ بھی لگتا گیا۔
قادر اپنی معمول کی زندگی میں واپس جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بازار گیا تو دکان دار مجید نے اس کے چہرے کا پژمردہ رنگ دیکھ کر پوچھا، “سب خیریت ہے؟”
قادر، جو اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا، ایک بار پھر بات دہرا بیٹھا۔ مجید بھی رحیم کی طرح ضبط نہ کر سکا۔ اب ہر خریدار کے کان میں یہی خبر ڈالنے لگا۔ بات مزید پھیل گئی، اور افواہ نے لیلیٰ کو بے نقاب کر دیا۔
چند دنوں بعد، قادر صاحب نے مسئلے کو مذہبی زاویئے سے حل کرنے کی کوشش کی اور گاؤں کے مولوی صاحب سے مشورہ کیا۔ مولوی صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو “اصلاحی” خطبے کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔ اگلے جمعہ، خطبے میں والدین کی اطاعت کا موضوع اٹھایا گیا۔ بغیر نام لئے مولوی صاحب نے پوری بستی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“ہمارے گاؤں میں کیسی بیٹیاں پیدا ہو رہی ہیں، جو والدین کی نافرمانی کر کے خاندان کی عزت خاک میں ملا دیتی ہیں!”
خطیب کی زبان، سامعین کی نظریں اور سوشل میڈیا کی ویڈیوز نے وہ آگ لگا دی جس نے لیلیٰ کی روح کو جلا دیا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام پر ایک ہی بات تھی “قادر کی بیٹی…”
کسی نے کہا وہ بھاگ گئی، کسی نے کہا وہ بدچلن تھی اور کسی نے صرف قہقہے لگائے۔
جب یہ ویڈیو لیلیٰ کے اپنے موبائل پر آئی تو وہ خاموش ہو گئی۔ شام کے سائے تیز ہوئے، لیلیٰ نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا، دوپٹہ ہاتھ میں لیا اور پنکھے سے لٹک گئی۔ اُس نے وہ سوال ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جو وہ عزت کے ساتھ پوچھنا چاہتی تھی۔اگلی صبح، گاؤں کی فضاء سوگوار تھی۔
“قادر کی بیٹی نے خودکشی کر لی!”
مگر درد کا سلسلہ یہیں نہ رکا۔ جس لڑکے سے لیلیٰ محبت کرتی تھی، جب اُس نے یہ خبر سنی، تو وہ بھی چند گھنٹوں بعد اپنے کمرے میں لٹکا ہوا ملا۔
ایک کہانی جو محبت، عزت اور امید سے شروع ہوئی تھی، اب دو جنازوں اور ان گنت طعنوں پر ختم ہوئی۔
اخلاقی پیغام:
اس کہانی کا سبق نہایت تلخ ہے:
ایک حساس مسئلہ، جو پیار، سمجھداری اور گفتگو سے حل ہو سکتا تھا، افواہوں، زبان درازی اور سوشل میڈیا کی بے لگامی کی نذر ہو گیا۔
ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا ایک انسانی جان کی قیمت پر پڑ سکتا ہے۔ ہر ویڈیو شیئر کرنے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ اس کے پیچھے ایک دل، ایک خاندان اور شاید ایک مستقبل چھپا ہے۔
زبان سے نکلے الفاظ، اگر حد سے گزر جائیں، تو تلوار سے زیادہ گہرے زخم چھوڑتے ہیں۔
���
ریسرچ سکالر بخش فارسی ،کشمیر یونیورسٹی
[email protected]