کابل//افغان طالبان نے سعودی عرب میں امریکہ کے ساتھ طے شدہ بات چیت میں یہ کہتے ہوئے شرکت سے انکار کر دیا ہے کہ ان مذاکرات کا مقام تبدیل کیا جائے۔طالبان کی جانب سے سعودی عرب میں مذاکرات سے انکار کا مقصد بظاہر ریاض کے اس دباؤ کو ختم کرنا ہے کہ طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات چیت کریں۔طالبان نمائندوں اور امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے درمیان افغاستان میں گزشتہ 17 سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے آئندہ ہونے والی بات چیت اس سلسلے کا چوتھا دور سعودی عرب میں ہونا ہے۔جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور 2019ء میں ممکنہ بات چیت کے بارے میں تبادلہ خیال ہو گا۔کابل حکومت کو امن بات چیت میں شامل کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود افغان طالبان نے کابل حکومت سے براہ راست بات چیت کی پیش کش کو مسترد کر چکے ہیں۔افغانستان میں موجود طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا ہے کہ "ہم نے ابوظہبی میں ہونے والے امن مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آئندہ ہفتے ریاض میں امریکی عہدیداروں سے ملاقات کرنی تھی۔"انہوں نے کہا "تاہم مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے عہدیدار چاہتے ہیں کہ ہم افغان حکومت کے وفد سے ضرور ملاقات کریں۔ جو اس وقت ہم نہیں کر سکتے ہیں اس لیے ہم نے سعودی عرب میں ہونے والی بات چیت کو منسوخ کر دیا ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ طالبان مذاکرات قطر منتقل کرنا چاہتے ہیں جہاں طالبان کا سیاسی دفتر واقع ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان نے سعودی عرب میں ہونے والی بات چیت کو منسوخ کر دیا ہے تاہم انہوں نے بات چیت کے نئے مقام کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔دوسری طرف کابل میں امریکہ کے سفارت خانے نے درخواست کے باوجود اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔طالبان کے ایک دوسرے رہنما نے کہا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کو یہ واضح کیا ہے کہ طالبان کے لیے اس مرحلے پر افغان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کرنا ممکن نہیں ہے۔