واشنگٹن//امریکا اور افغان حکومت کی جانب سے مشترکہ طور پر عیدالضحیٰ کے موقع پر ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کے ساتھ جنگ بندی کیے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔اس سے قبل رواں برس جون میں افغانستان کے 3 ہزار مذہبی علما کی جانب سے فتویٰ دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں افغانستان میں پہلی مرتبہ جنگ بندی عمل میں آئی تھی اور حریف جنگجوؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھلنے ملنے کا موقع ملا۔بعد ازاں، افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے 8 روزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اس کی مدت میں مزید 8 روز کی توسیع کی گئی تھی، جبکہ طالبان جنگجوؤں کو مفت طبی سہولیات اور انسانی امداد کی فراہمی کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔اس کے علاوہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیدیوں کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ معلومات کے مطابق واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ عیدالالضحیٰ کی 3 روزہ تعطیلات کے موقع پر افغان حکومت طویل مدت کے لیے جنگ بندی کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔متوقع طور پر ایک ماہ پر محیط آئندہ جنگ بندی کے دوران حکومت کی جانب سے دوبارہ طالبان جنگجوؤں کے لیے طبی سہولیات، انسانی امداد کی فراہمی اور قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے طویل عرصے سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے حوالے امریکا سے براہِ راست مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، لیکن وہ افغان حکومت کو اس مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنانا چاہتے۔حال ہی میں یہ معاملہ امریکی دفتر خارجہ میں اس وقت دوبارہ موضوع بحث بنا جب امریکی حکومت کی ترجمان کی بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے اس حوالے سے سوال پوچھا کہ ’کیا امریکا، طالبان سے براہ راست مذاکرات کی کوشش کررہا ہے؟‘جس کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کرکے تمام ممکنہ راستے تلاش کر رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے موقف میں تبدیلی نہیں آئی اس حوالے سے امن و مصالحت کی کوئی بھی کوشش افغانستان کی سربراہی میں افغانستان کی شمولیت سے ہی ہوگی۔جس پر صحافی نے ایک مرتبہ پھر دریافت کیا کہ ’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا؟'جس کے جواب میں ترجمان کا کوئی واضح جواب دینے کے بجائے کہنا تھا کہ ’میں بس ابھی اتنا ہی کہہ سکتی ہوں‘۔