کپوارہ//پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے کہا ہے کہ عمر عبداللہ 2014 انتخابات کے بعد بی جے پی اعلیٰ قیادت سے تین سال تک وزیراعلیٰ بننے کیلئے اْن سے حمایت مانگی تھی۔ سجاد نے مزید کہا کہ ’’ کشمیر میںفوجی اقدامات کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔غیر فوجی اقدامات اب ناگزیر بن چکے ہیںاور ریاست کے خصوصی آئینی مقام میں ہوئی بیخ کنی کی تلافی کرنا ہے۔بی جے پی کو یہ بات سمجھ لینی چایئے کہ افسپا مسئلہ کا حصہ ہے اور وہ مسئلہ کا حل نہیں بن سکتا۔ غرور ،تکبر اور جنگی جنون بی جے پی کو کشمیر میں کچھ نہیں دے سکتے‘‘۔ہندوارہ میں چناوی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سجاد نے کہا’’2014اسمبلی انتخابات کے بعد عمر عبداللہ نے کناڈ پیلس دہلی کی ایک عمارت میں اڑھائی گھنٹوں سے زیادہ تک بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی اور حکومت سازی کیلئے اْن کا تعاون طلب کیا۔جو ڈیل انہیں دینی تھی ،وہ باری باری وزیراعلیٰ سے متعلق تھی جس کے تحت وہ پہلے تین سال کیلئے وزیراعلیٰ رہتے اور اس کے بعد جموں سے بی جے پی کا وزیراعلیٰ تین سال کیلئے ہوتاتاہم بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے یہ ڈیل مسترد کردی‘‘۔سجاد نے کہا کہ عمر خود بی جے پی کے مسترد شدہ ہیں،اگر اْن میں دم ہے وہ اس کی تردید کرے ، اگر وہ نظریاتی طور اتنے ہی بی جے پی کے مخالف ہیں تو وہ اڈھائی گھنٹوں تک ان کی اعلیٰ قیادت سے کیوں ملے ؟۔انہوںنے وزیراعلیٰ بننے کیلئے اْن سے حمایت کی بھیک کیوں مانگی ؟۔سجاد نے کہا کہ یہ کشمیری عوام کیلئے واقعات کے تسلسل کی خونی ٹائم لائن ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ سے شروع کیا جہاں شیخ صاحب مہاراجہ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے گئے جس پر پاکستان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے شیخ صاحب کو مہاراجہ کا ملازم قرار دیا۔پی سی چیئرمین کا کہناتھا’’یہ اسی دور کی بات ہے جب جموں میں مسلمانوںکا قتل عام ہوا۔1975میں شیخ صاحب نے وزیراعظم کے عہدے کا سودا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیا۔1987میں فاروق عبداللہ نے انتخابی دھاندلیاں کیںاور کشمیر کو تشدد کی طرف دھکیل دیا جو تاحال ختم ہونے کا نام لے رہا ہے ۔کشمیری1989میں بغاوت پر آمادہ ہوئے اور بندوق اٹھائی۔‘‘سجاد نے مزید کہا کہ کوئی بھی کشمیری جماعت 1996 میں حکومت ہند کی جانب سے کسی سیاسی ڈیل کی پیشکش تک الیکشن لڑنے پر آماد ہ نہیں تھی تاہم فاروق عبداللہ نے ایسے کسی بھی امکان کو سبوتاژکردیا۔انہوں نے حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا اور حکومت بننے کی یقین دہانی کے عوض الیکشن لڑے۔پھر1996سے2002کا دور کشمیریوں کیلئے کربناک ثابت ہوا‘‘۔سجاد نے کہا کہ فاروق نے2001میں حکومت ہند اور حزب المجاہدین کے درمیان مذاکرات کو بھی ناکام بنایا۔بات چیت کا پہلا دور سرینگر میں ہونا تھا۔مذاکرات پریس کی چکا چوند سے دور منعقد ہونا طے پایاتھا۔فاروق عبداللہ کی سربراہی میں وزیراعلیٰ کے دفتر نے پریس کو اطلاع دی اور جب ملی ٹنٹ مذاکرات کی جگہ پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے میڈیا کے سینکڑوں کارندے دیکھے۔یہ بات چیت کے عمل کا اختتام تھا اور نتیجہ کے طور پر بعد میں وہ سارے ملی ٹنٹ مارے گئے۔انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کو راجستھان میں کشمیریوںکی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ وہاں اْن کا قریبی رشتہ نائب وزیراعلیٰ ہے۔سجاد نے کہا’’یہ بہتر رہے گا اگر کشمیریوں پر راجستھان میں ہونے والے حملوں کو روکنے کیلئے اْن کا اثر ونفوز استعمال کیاجاسکے‘‘۔