کمائی
سیٹھ جی خوش تھے کہ اس نے صرف پانچ سو روپے میں زمیں کا اتنا بڑا ٹکڑا قابل کاشت بنوایا اور مزدور لسہ بابا حد سے زیادہ خوش تھا کہ اس نے آج اتنے روپے کمائے کہ وہ بیوی کی ساری فرمائشیں پوری کر سکتا ہے ۔سیٹھ نے پانچ سو کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا تو لسہ بابا نے نوٹ ایسے لیا جیسے کسی بہت بڑے پیر صاحب کا تعویز لیا ہو ۔۔نوٹ کو ایسے چوما جیسے کوئی محبوب اپنی محبوبہ کو چومتا ہے۔ نوٹ کو بڑی احتیاط سے جیب میں رکھا اور کوئی گیت گنگناتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑا ۔
آج میں چاول ،پیاز، آلو، تیل اور نمک ہی نہیں بلکہ نبہ قصائی کے گھر سے پائو بھر گوشت بھی لے سکوں گا۔ بیچاروں نے کئی مہینوں سے گوشت نہیں دیکھا ہے۔ دو دن سے بھوکے ہیں، آج پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے ۔اس نے تصور میں دیکھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گوشت اور چاول کھا رہاہے اور اس کی بیوی بہت خوش ہے۔
اچانک وہ ایک گرجدار آواز سن کر چونکہ پڑا۔
ابے او ناک کی سیدھ میں جارہا ہے۔ دکھائی نہیں دیتا کہ سامنے پولیس کھڑی ہے۔۔وہ گھبرا گیا اس سے پہلے وہ کچھ کہتا پولیس والے نے کہا
ماسک کیوں نہیں پہنا ہے نکال پانچ سو روپے جرمانہ۔۔۔۔۔
پیار
اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ہم دونوں نے زندگی کے بیس سال ساتھ گزا رے اور ہم لازم و ملزوم ہیں۔ اب ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے ۔ میں آ پ کے بغیر زندگی کس طرح گزار سکتی ہوں۔ اگر آپ کو کچھ ہوا تو میں زندہ نہیں رہ سکوگی۔ بیوی نے شوہر کے سینے پرسر رکھا اور انکھیں بند کرلیں
میاں نے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا،
جانم ایک بات کہوں ۔۔۔
مجھے آج معلوم ہوا کہ میں کووڈ پازیٹیو ہوں۔
بیوی اچھل پڑی کچھ کہے بغیراپنا تکیہ ہاتھ میں اٹھائے بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئی، جہاں اس کی بیٹی سو رہی تھی ۔نہیں نہیں۔۔۔
شوہر نے آواز لگائی۔ ارے میں تو مذاق کر ریا تھا۔ مگر اس کی آواز کسی نے نہیں سنی اور دروازہ کو اندر سے کنڈی چڑھ گئی۔
نام
چوتھے اسپتال میں بھی جب سکینہ بیگم نے اپنے شوہر کا نام بولا تو اسے جواب ملا کہ ایسے مریض کو ہم اپنے اسپتال میں داخل نہیں کرسکتے ۔سکینہ بیگم کا شوہر تڑپ رہا تھا۔ اسے اب سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی ۔سکینہ بیگم اکیلی تھی اور آٹو رکشا میں شوہر کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کی طرف لے جارہی تھی ۔۔وہ تھک کر چور ہوچکی تھی مگر اپنے شوہر کو بچانے کے لئے اس نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ اب وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ اس کے شوہر کو کسی اسپتال میں داخل کیوں نہیں کیا جاتا ہے ۔۔اچانک اس کے دماغ میں ایک کوندا سا لپکا اس نے بالوں میں سے تیز دھار والی پن نکالی اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے میں زور سے چبھودی۔ خون کی ایک دھار نکلی جس کو اس نے مانگ میں بھرا۔ اب اس کی مانگ دور سے لال نظر آرہی تھی۔ رکشا تیزی سے چل رہا تھا کہ سکینہ بیگم نے ڈرائیور سے کہا آگے جو بھی اسپتال آئے وہیں رک جانا۔
بڑی مشکل سے اس کا شوہر اس کے سہارے اسپتال گیٹ تک پہنچا ۔۔گیٹ کیپر نے اسے غور سے دیکھا اور روکا نہیں۔ اندر ڈاکٹر نےسکینہ بیگم کو دیکھا تو اس کا نام پوچھے بغیر اس کے شوہر کو ایمرجنسی روم میں داخل کیا اور اس کا علاج کرنے لگے۔۔۔باہر سکینہ بیگم دیوار پر لگے آئنے میں اپنی خون بھری مانگ دیکھ رہی تھی اس کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
بیٹی بیٹے
بھگوان داس کو ایمرجنسی تھیٹر میں داخل کیا گیا تھا۔ اسے کوئی سرجکل پرابلم تھی۔ تھیٹر کے باہر کوریڈور میں اس کے چار بیٹے اور بیٹی انتظار کر رہے تھے۔ جب اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اس نے دس روز بھوک ہڑتال کی تھی کیونکہ وہ بیٹی کو ایک نحوست سمجھتا تھا۔ سرجن آیا تو بھگوان داس کے بیٹوں نے اس سے کہا، ڈاکٹرصاحب اگر ہمارے پتا شری کو کچھ ہوا تو ہم اس اسپتال کو آگ لگا دیں گے۔ وہ ہمارا بھگوان ہے۔ خیال رکھنا ۔سرجن گھبرایا ہوا تھیٹر میں داخل ہوا ۔۔ مریض کا پیٹ چاک کیا گیا تو اس کی سانس رک گئی اور وہ مرگیا ۔سرجن گھبرا گیا ۔۔اب کیا ہوگا وہ سوچنے لگا۔ اس نے اسپتال کے ڈائریکٹر کو فون پر صورتحال سے آگاہ کیا ۔۔۔اس نےمسکراتے ہوے جواب میں کہا کہ میرے پی اے سے بات کرو ۔۔۔۔۔پی اے نے سرجن کو سمجھایا کہ کیا کرنا ہے ۔۔۔سرجن نے سب سے سینئر نرس سلطانہ کو باہر سمجھا۔
سلطانہ نے بھگوان داس کے بیٹوں سے کہا افسوس کی بات ہے کہ آپ کے پتا کو نہیں بچا سکے کیوں کہ وہ کووڈ بیماری میں مبتلا تھا اور سرجری کے دوران ان کے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔۔۔یہ سن کر بھگوان داس کے بیٹے کوریڈور سے یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور بیٹی تھیٹر کی طرف تیزی سے بھاگی اور تھیٹر میں داخل ہو کر باپ کی لاش کے ساتھ لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر;9419009404