عذراؔ حکاک
چاندنی
چاندنی کی حسین آنکھوں میں نمی تھی مگر ہونٹوں پر کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ ابھی اُسی دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی، جہاں سے ابھی ابھی اس کی نند اور جیٹھانی نے اْسے دھکا دے کر باہر نکالا تھا۔
“اس گھر میں تمہارے لئے تبھی جگہ ہوگی جب تم اپنے حق مہر کا سونا واپس کرو گی۔۔۔ورنہ اس گھر میں قدم نہ رکھنا!”اچانک شوہر کی کڑک دار آواز اس کے کانوں میں گونج اٹھی جو دروازے کے اس پار سے آرہی تھی۔
یہ وہی سوناتھاجو نکاح کے وقت شوہر نے فخر سے پوری دنیا کے سامنے اس کو دیا تھا۔ اب وہی شوہر یہ کہہ کر اْ س سے واپس مانگ رہا تھا کہ یہ اسکی عمر بھر کی کمائی ہے اوروہ اسے چاندنی کے حوالے کیسے کر سکتا ہے۔
چاندنی نے انکار نہیں کیا تھا۔بس نرمی سے کہا تھاکہ ابھی شادی کو صرف تین ہی مہینے ہوئے ہیں اور وہ امید سے بھی ہے۔لہٰذا اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔یہ اس کی بے وقوفی تھی کہ نادانوں،ظالموں اور لالچیوں کی نگری میں وہ دانائی کی بات کر رہی تھی ۔بھلا کون اسے سمجھتا۔
وہ دھیرے سے سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔آسمان کسی مخملی چادر کی مانند سیاہ تھا جس پر چاندنی تنہا ایک چمکتے ہوئے زخم کی مانند ابھری ہوئی تھی۔بارش زوروں پر تھی۔ آسمان چیخ رہا تھا۔زمین سسک رہی تھی۔ چاندنی چادر میں لپٹی، دونوں ہاتھوں سے پیٹ تھامے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر درد، آنکھوں میں سوال اور لبوں پر خاموشی تھی۔ اچانک اس کے پیٹ میں پلتی زندگی نے معمولی سی حرکت کر کے اسے احساس دلایا کہ وہ آسمان میں موجود چاندنی کی طرح تنہانہیں ۔
ووٹ کے قیدی
گاؤں “رفیق آباد” میں ہر پانچ سال بعد ایک میلہ لگتا تھا۔۔۔۔۔۔ووٹ کا میلہ۔ہر طرف گہما گہمی تھی۔ جھنڈے، نعرے، جلسے اور لالچ۔۔۔لالچ بھی ایسی کہ جو کسی ظالم محبوب کی مانند ہو،نہ صاف دکھتی اور نہ صاف چُھپتی۔ گاؤں کے لوگ ایک بار پھر اْمید کی کچی دیواروں پر خوابوں کی اینٹیں چن رہے تھے۔ہر طرف خوشیاں تھیں۔ طرح طرح کے وعدے کئے جارہے تھے اور رنگ برنگے جھنڈے بھی لہرائے جارہے تھے۔ اس بار بھی الیکشن قریب تھا اور امیدوار “چوہدری نذیر” پورے زور و شور سے مہم چلا رہا تھا۔
“میرے وعدے یاد رکھنا! بجلی، پانی، اسپتال، سب کچھ آئے گا!” وہ مائیک پر چیختا۔
پچھلے پانچ سالوں میں بجلی ،پانی اور سڑکوں کا حال ویسے کا ویسا ہی تھا ۔ گاؤں کا اسپتال مویشیوں کا باڑہ بن چکا تھا۔ مگر چوہدری صاحب کی تقریر میں نئی جان تھی جیسے سب پچھلے دکھ دُھل چکے ہوں۔
بوڑھا حمید،جو ہر بار ووٹ دیتا تھا، اس بار خاموش تھا۔ پوتا سرور بولا “دادا! اس بار ووٹ کس کو دو گے؟‘‘
حمید نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا “بیٹا، ووٹ تو ہم دیتے ہیں مگر قیدی بھی ہم ہی بنتے ہیں۔ “ووٹ کے قیدی”۔۔اور چودھری جیسے لوگ ہر سال بس چہرے بدلتے ہیں، نیتیں نہیں۔”
الیکشن ہوا، چوہدری پھر جیتا۔ ایک ہفتے بعد وہ شہر لوٹ گیا۔ رفیق آباد پھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔صرف ووٹ کی روشنیاں باقی رہ گئیں۔تصویروں میں، پوسٹروں میں اور جھوٹے وعدوں میں۔
دکھاوے کی مسکراہٹ
ماہم کے آنسو روز کا معمول بن چکے تھے لیکن آج کچھ اور تھا۔ نند نے صبح سب کے سامنے طعنے دیتے ہوئے کہا”اسے نکال دو بھائی! یہ ہمارے معیار کی نہیں۔ نہ چلنے کا سلیقہ، نہ بولنے کا۔”
اس کاشوہر جو ہمیشہ ماہم سے پیار کے دعوے کرتاتھا،چپ چاپ کھڑا رہا۔ بس اتنا کہا”امی! آپ بہتر جانتی ہیں۔ اگر گھر کا ماحول خراب ہو رہا ہے تو فیصلہ آپ ہی کریں۔”
ماہم نے حیرت زدہ آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھا۔ وہی شوہر جو دوستوں کے سامنے اپنی محبت کی بڑی بڑی باتیں کرتا۔ انسٹاگرام پر
HAPPY WIFE, HAPPY LIFE ” “پوسٹ کرتا۔ آج اپنی بیوی کے حق میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔
رات کو کمرے میں آیا۔ ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ “یار ماہم !کل تمہارے ساتھ فوٹو ڈالی تھی، ہزار لائکس آئے ہیں۔ تمہارا مسکرانا ضروری ہے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟”
ماہم خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ اْس کے آنسو۔۔۔ اْس کا درد صرف اْسے محسوس ہورہا تھا۔ باقی سب کے لئے وہ صرف ایک مسکراہٹ تھی۔ دکھاوے کی مسکراہٹ ۔
گوجوارہ، سرینگر،کشمیر
[email protected]