ہلال بخاری
ارمان
دسمبر میں اماں جان طویل علالت کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئی۔ ماں اور اولاد کی محبت کا جذبہ عالمگیر ہے۔ اس موقع پر میرا بھی جذباتی ہونا ایک فطری امر تھا۔ شاید میں نے کسی موت کو اس سے پہلے اس شدت سے محسوس نہ کیا ہوگا۔ موت کے بے رحم غلبہ اور اپنی بے بسی کو محسوس کرکے زندگی بے معنی سی نظر آنے لگی اور دل معنی کی تلاش میں بے چین ہونے لگا۔
پھر ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب باغ میں پہنچا ہوں۔ یہاں کی فضا گلوں کی خوشبو سے معطر ہے، نیلے اور پر کشش آسمان کے نیچے رنگین و دلکش پرندے اڑتے پھر رہے ہیں۔ ہر طرف حسن و جمال کے کرشمے دل کو سکون میسر کر رہے ہیں۔ ان نظاروں کے بیچ اماں جان صحت مند ، خوبصورت اور جوان حالت میں ہیرے کا ایک تاج پہن کر سونے کے ایک تخت پر براجمان ہے۔ ایک دلفریب جام میں کچھ کنیزوں نے اماں کو شربت پیش کی، اس نے کچھ پی اور باقی ایک طرف رکھ دی۔ اماں مسکرا کر مجھے تکنے لگی ۔ پھر اس نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میں نے خوشی سے ان کے پاس جاکر اپنا سر انکی گود میں رکھا اور وہ محبت سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد اس نے مجھے وہ شربت پینے کو کہا۔ اس شربت کو پینے کا ارمان میں جیسے میرا دل برسوں سے مچل رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں پینے سے پہلے ہی اس کی ٹھنڈک اور لذت کو محسوس کر رہا تھا۔ لیکن جب میں نے وہ شربت کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا تو مجھے لگا میں عام پانی پی رہا ہوں۔ حیرت کی شدت سے میں اس جام کو دیکھنے لگا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے ارد گرد سب کچھ وہ جام، ہیروں کا تاج، سونے کا تخت، چرند و پرند یہاں تک کہ اماں جان سارے باغ اور تمام مناظر، سب موم کی طرح پگھلنے لگے۔
میرے دل میں کتنی حسرت تھی کہ یہ منظر ہمیشہ کے لئے رہتا لیکن میں اس بات سے بھی باخبر تھا کہ اگر وہ سب موم کی طرح پگھل بھی نہ جاتے تب بھی میری آنکھ کھلنے پر یہ سب ختم ہونے ہی والا تھا کیونکہ یہ تو صرف ایک خواب تھا۔
میری آنکھیں کھلیں تو میری نظر کاغذ کی پرچی پر لکھے ہوئے اس شعر پر پڑھی،
“تمنا دل میں پختہ ہو، اسے ایمان کہتے ہیں،
تمنا جو نہ پوری ہو اسے ارمان کہتے ہیں۔”
حیرت
یونس آفندی ایک زمانے کا مشہور زمانہ خدا دوست گزرا ہے۔ ایک شام دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد وہ تھکا ماندا اور بھوک سے بے حال ایک جنگل میں کچھ درویشوں کی صحبت میں بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی اس نے بے صبری سے ان لوگوں سے پوچھا ،
“کھانے کا کوئی انتظام ہوسکتا ہے ؟”
” جب ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم ایک ولی اللہ کے توسط سے رزاق سے رزق طلب کرتے ہیں۔” ان میں سے ایک درویش نے بڑی نرمی سے کہا۔
“مجھے بھی اس ولی اللہ کا نام بتائیں تاکہ میں کھانا حاصل کرکے اپنی بھوک مٹا سکوں۔” اس نے مسکرا کر کہا۔
” اس ولی خدا کا نام یونس آفندی ہے۔”
ان میں سے ایک درویش نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
اپنا ہی نام اس طرح سن کر یونس کی ساری بھوک ختم ہوئی اور اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں برسنے لگیں اور اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے، کوئی اس سے مذاق کر رہا ہے یا اس کی آزمائش ہورہی ہے۔ خاموشی کے علاوہ اُ سے کوئی اور عمل نہ سوجھا اور وہ ان لوگوں کے نورانی چہروں کو حیرت سے تکتا رہا۔
ہردوشورہ کنزر، ٹنگمرگ باراہمولہ کشمیر