ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر
الحاصل
جنوری کے یخ بستہ، دھند سے آلودہ دن میں ہمایوں اُس روشنی کی تلاش میں نکلا جس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ جسم کے ساتھ روح میں بھی حرارت پیدا کرتی ہے۔ سرد ہوا کے جھونکے بےجان دکھنے والے پیڑوں کی شاخوں میں لرزش پیدا کر رہے تھے، جیسے کوئی خاموش احتجاج ہو۔ پرندوں کے جھنڈ شور مچاتے آسمان کی وسعتوں میں اڑ رہے تھے، گویا سردی کے خلاف کوئی مظاہرہ کر رہے ہوں۔
ہمایوں کے دل میں ایک بےچین خواہش تھی، ایک خواب جو بچپن سے کسی چنگاری کی طرح جل رہا تھا۔ آج اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس خواب کو حقیقت میں بدل کررکھ دے گا۔ سردی نے اُس کے جسم کو تو منجمد کیا تھا مگر اس کی روح میں اب بھی امید کی حرارت باقی تھی۔
کچھ دیر چلنے کے بعد، اسے ایک زیرک شخص ملا۔ ہمایوں نے اپنی جستجو کا احوال بتایا تو اُس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “اس دنیا میں اندھیرے سے خوفزدہ لوگ روشنی کے ماخذ پر یقین کرتے ہیں، مگر یہ محض کہانی ہے، حقیقت نہیں۔”
ہمایوں کے دل میں شبہات کا طوفان اٹھا۔ وہ زیرک کے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر اُسے دادا جان کے الفاظ یاد آئے، “روشنی کا واقعی ایک ماخذ ہے۔ وہ دل کے مضبوط لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔”
بچپن میں جب ہمایوں نے دادا جان سے پوچھا تھا، “کیا کوئی ہماری مدد کر سکتا ہے کہ ہم روشنی کے ماخذ تک پہنچ جائیں؟”
دادا جان نے مسکرا کر کہا تھا، “بیٹا، یہاں رہبر کم اور رہزن زیادہ ہیں۔ فرق کرنا سیکھو۔”
پورا دن ہمایوں نے روشنی کے ماخذ کی تلاش میں گزارا مگر کہیں کچھ نہ ملا۔ تھکاوٹ اور مایوسی کے عالم میں وہ تقریباً ہار مان چکا تھا کہ ایک اجنبی ملا۔ اس نے ہمایوں سے پوچھا، “کیا تلاش کر رہے ہو؟”
ہمایوں نے جواب دیا، “وہ روشنی جس کے بارے میں سنا ہے کہ وہ کامیابی کی کنجی ہے۔”
اجنبی زور سے ہنسا اور بولا، “یہ روشنی لوگوں کے بدلاؤ کی وجہ سے بند ہو چکی ہے۔”
ہمایوں حیرت میں ڈوبا، “پھر ہماری نجات کا راستہ کیا ہے؟”
اجنبی نے سنجیدگی سے کہا، “میں نے بھی بہت جستجو کی۔ آخرکار ایک غار کا سراغ ملا، جس کی تاریکیوں میں گم ہو کر اور پھر ابھر کر ہی مجھے اپنی نجات کا احساس ہوا۔”
پھر وہ اجنبی ہمایوں کو ایک تاریک غار کے پاس لے گیا اور بولا، “یہی وہ جگہ ہے جہاں روشنی کے راز چھپے ہیں۔ لوگ اندھیرے سے ڈرتے ہیں، مگر اصل خزانہ انہی تاریکیوں میں چھپا ہے۔”
ہمایوں کے دل میں دادا جان کے الفاظ گونجے، “روشنی اور اندھیرا دو الگ سلطنتیں ہیں، جو لوگ تاریکیوں میں ڈوب کر ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انکو نور کا ماخذ حاصل ہوہی جاتا ہے۔”
اجنبی نے کہا، “اگر تمہیں اپنی منزل تک پہنچنے کا جنون ہے تو اس غار میں اُترنا ہوگا، اس کی تاریکیوں کو سمجھنا ہوگا اور پھر خود کو مکمل کرنا ہوگا۔”
ہمایوں سوچ میں پڑ گیا۔ دادا جان کے وہ الفاظ یاد آئے، “جو لوگ روشنی کی تلاش میں نکلتے ہیں، روشنی خود ان کی رہبری کرتی ہے۔”
ہمایوں نے خود سے کہا، “شاید یہ اجنبی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ دن ختم ہونے کو ہے، اور میرے پاس صرف یہ غار بچا ہے۔ کیوں نہ اس کی تاریکیوں میں جھانکوں، شاید کچھ ہاتھ آ جائے۔”
یہ سوچ کر ہمایوں غار کے اندر اتر گیا، تاریکیوں میں کھو گیا۔ وہ تاریکیاں جن کے اسرار اُس کے لئے شاید نئے دروازے کھولنے والی تھیں۔
تحقیق
کسی علاقے کے لوگوں میں یہ یقین پختہ ہوا تھا کہ کہیں پر ایک منفرد، مبارک اور عظیم پیڑ ہے جو رنگ بدلتا ہے اور اس پر ہزاروں رنگین پھول کھلتے ہیں جن کی خوشبو سے بیماروں، مفلسوں اور ضرورت مندوں کی امداد ہوتی ہے۔ منفرد پیڑ کی عظمت اور اس پر کھلنے والے پھولوں کی کرامات کے بارے میں ہزاروں صحیفے تحریر ہوئے تھے اور لوگ ان صحیفوں کو مقدس اور بر حق سمجھتے تھے۔ ہر کسی کے دل کی یہ تمنا ہوتی تھی ان میں سے کسی ایک پھول کا دیدار نصیب ہو اور اس کی مہک سے ان کے دن سنور جائیں لیکن نہ کسی نے ایسے کسی پھول کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کسی شخص کی رسائی اس پیڑ تک کبھی ہوپائی تھی۔ لیکن لوگوں کے دل ان کے بارے میں عقیدت اور ایمان سے سرشار تھے۔
پھر ایسا ہوا کہ اس علاقے میں ایک زیرک آیا اور اس نے اور فرمایا، “جن مبارک پھولوں کے بارے میں لوگ قصے کہانیوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ خوشبو سے عاری ہیں، نہ ان میں کوئی ایسی کرامت موجود ہے جو کچھ کتابوں میں لکھی ہے۔
“میں نے صحیح صحیفوں کو دانائی سے پرکھنے کے بعد پایا کہ صرف منفرد پیڑ ہی ایک حقیقت ہے باقی سب توہم پرستی ہے۔” اس زیرک نے فرمایا۔
جب لوگوں نے اسے اپنے متبرک صحیفے دکھائے جن میں مبارک پھولوں کی کرامات درج تھیں تو اس نے فرمایا،
” لوگ ان کتابوں کی عقیدت میں غلو کرکے گمراہ ہوئے ہیں۔ یہ صحیفے بس قصہ کہانیاں ہیں۔”
اس زیرک شخص نے لوگوں کو تحقیق کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا اور فرمایا، “تحقیق ہی کے ذریعے آپ کو اصلیت کا سامنا ہوگا۔آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل میں صرف وہی صحیفے قابل اعتماد ہیں جو متبرک پیڑ کے بارے میں ہیں۔ اس پر کھلنے والے پھول تو وقت کے ساتھ ساتھ مرجھاتے ہیں اور مرجھائے ہوئے پھولوں میں خوشبو ہونا ناممکن ہے۔”
کچھ لوگ حیران و پریشان ہوئے انہوں نے سوچا کہ اگر اس متبرک پیڑ کے پھول بھی عام پھولوں کی طرح موسمی ہوتے ہیں تو اس پیڑ میں کیا خاص بات ہوسکتی ہے؟ کچھ نے اس زیرک کی بات کو یکسر مسترد کردیا اور کہا، ” یہ شخص دانائی کے اسرار و رموز سے خالی ہے۔ یہ محض گمان کی بنیاد پر کچھ صحیفوں کو حق اور کچھ کو باطل قرار دیتا ہے۔”
لوگ آہستہ آہستہ الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہونے لگے اور ایک دوسرے کو کافر اور زندیق سمجھنے لگے۔
ان میں سے کچھ جو صحیفوں کی حقیقت پر شک کرنے لگے سچائی کی تلاش کرنے کے لئے تحقیق کا راستہ اپنانے لگے۔ سچائی کو تلاش کرنے والوں میں سے کچھ جو آگے بڑے انہوں نے پتا لگایا کہ ان پھولوں کی خوشبو کئی دوسرے پھولوں کی ہی طرح تھی۔ ان کو معلوم ہوا کہ ان پھولوں میں کوئی خاص اور منفرد بات نہیں البتہ اصل امداد تو اس منفرد پیڑ سے ہی ہوتی ہے۔ لیکن جو کچھ شخص ان سے بھی آگے نکل پڑے اور تحقیق کرتے رہے ان کو آخر سمجھ آیا کہ رنگین ، منفرد ، مبارک اور اعلیٰ پیڑ کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں۔
جب انہوں نے اپنی تحقیق کو لوگوں پر اظہار کیا تو اس نے مزید حیرت کو جنم دیا اور مزید حیرت نے مزید تحقیق کے راستے کھولے اور یہ عمل صدیوں تک چلتا رہا۔
���