فلک ریاض
وہ ہے
وہ اکیلا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ خدا کے کان نہیں آنکھ نہیں، وہ سانس نہیں لیتا تو وہ سنتا کیسے ہے، دیکھتا کیسے ہے ۔۔اس کا ایمان دھیرے دھیرے ڈگمگانے لگا ہے۔ اسے نیند آئی وہ سو گیا۔ خوابوں میں کھو کر وہ کسی تالاب میں نہا رہا تھا۔اسے ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ پھر وہ خواب میں ہی کسی جنگل میں تھا اور اس نے آگ جلا رکھی تھی۔خود کو گرم کر رہا تھا۔ پہلے پہلے آگ کے قریب بیٹھنا اسے اچھا لگ رہا تھا لیکن پھر اچانک اس کے جسم کی گرمی بڑھنے لگی ۔ خواب میں وہ کافی گرمی محسوس کر رہا تھا اور اب وہ آگ سے دور جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اس کی آنکھ کُھل گئی اور حواس باختہ ہونے کے بعد اس نے خود کو ٹٹولاتو دیکھتا کہ وہ بخار سے تپ رہا ہے۔ اب وہ غور کرنے لگا کہ خواب میں تو وہ دریا سے بھی ہو آیا، جنگل کی آگ بھی دیکھ لی لیکن جسم تو ادھر کمرے میں ہے ۔میں سویا ہوا تھا۔ تو دریا کے اندر کیسے چلا گیا تھا اور آگ کی تپش کیسے محسوس کر پا رہا تھا ۔میری روح کو ایسی جگہوں پہ پہنچانے والا کون ہے ۔اگر میں ایک معمولی انسان ہو کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہوں کبھی جنگل کبھی دریا کبھی پہاڑ کبھی برف ۔۔۔اور یہاں بھی موجود ہوں وہاں بھی موجود تھا ۔۔وہ تو سارے جہاں کا بنانے والا ہے۔ اتنا بڑا ہے کہ ہماری آنکھ محاسبہ نہیں کر پاتی۔ وہ ہر جگہ موجود کیوں نہیں ہو سکتا وہ بغیر آنکھ کے دیکھ بھی سکتا ہے، بغیر کان کے سن بھی سکتا ہے ۔۔۔اب وہ سجدے میں گر پڑا اور خود سے گویا ہوا کہ میں اس کی تخلیق ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا پہنچتا ہوں خواب میں ۔۔۔وہ تو تخلیق کار ہے ۔۔۔۔وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
شُکر
اب فیس بک پہ اس کے ہزاروں شیدائی تھے۔ وہ جو بھی اشعار ڈالتا تو اس کو پذیرائی ملتی۔ابھی ایک سیکنڈ بھی نہیں گزرا ہوتا کہ واہ واہ شروع ہو جاتی۔ ہزاروں کمنٹس اور ہزاروں میں میسج آتے اس کا پوسٹ ہر کوئی شیئر کرتا تھا ۔چار سال تک وہ راشد بجلی کے قلمی نام سے لکھتا رہا لیکن ایک سو سے زیادہ لائیکس نہیں آتے تھے۔وہ سجدہ ٔشکر میں جھک گیا ۔۔۔کہ جب سے زینت کنول کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے ۔۔۔تب سے قارئین کرام اور عاشقوں کی لائین لگی رہتی ہے ۔
اب تو اس کو میسجز میں شادی کے پروپوزل بھی آنے لگے تھے اور وہ بھی بڑے بڑے شعرائے کرام کی طرف سے۔
ڈر
جنگل کے بھلو کو رہنے کے لیے شیر کی گھپا کیا مل گئی وہ خود کو بادشاہ کہنے لگا ۔ظلم کر کے جانوروں کو کھا جاتا تھا ۔اس جنگل میں چونکہ کوئی شیر نہیں رہتا تھا اس لئے اس کے جی میں جو آتا ہے وہ کرتا ۔مگر جنگل میں ایک چیتے کا بچہ بھی تھا جو دھیرے دھیرے جوان ہوا تو بھالو سے ٹکرانے لگا ۔۔۔بھالو نے چال چلی اور چیتا کے گھر کے پاس اپنی دوست لومڑی کو ایک گپھا دے دی ۔
دھیرے دھیرے لومڑی کی نسل بڑھنے لگی اوراب اس کی نسل بھی کمزور جانوروں کو ستانے لگی۔ اگرچہ جنگل میں ہاتھی بھی تھا مگر اس کو بھالو روز کیلے اور قیمتی گھاس کھِلاتا تھا۔ اور ہاتھی موٹا ہوتا گیا۔ وہ بھالو کے جبر کے خلاف کچھ نہیں بولتا تھا۔ چیتا جب جوان ہوا تو اس نے سب سے کہا کہ اگر ہاتھی ہرن اور جنگلی مرغ میرا ساتھ دیں تو ہم بھالو اور لومڑی کو نکال دیں گے ۔مگر مارے خوف کے کسی نے ساتھ نہ دیا۔
لومڑی روز خرگوش، فاختہ کوئیل اور کبوتر کھا تا۔ کے آدھا خود کھاتا آدھا بھالو کو بھی بھجواتا ۔جنگل کی آبادی کم ہونے لگی ۔سب کمزور جانور چیتے کے پاس گئے اور اپنی روداد سنائی۔ آخر فیصلہ ہوا کہ رات کو سب مل کر بھالو کے گھر جا کر اس پہ حملہ کریں گے ۔
یہ خبر جب لومڑی کے خاندان والوں تک پہنچی تو انہوں نے بھالو کے پاس جا کر اس کو آگاہ کیا۔
ادھر رات کو ہی چیتا ہاتھی کے گھر گیا اسے تیار کرنے کے لیے کہ اگر تم ساتھ دو تو ہم بھالو اور لومڑی کو ختم کر سکتے ہیں۔ہاتھی نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔مگر اسی رات بھالو نے ہاتھی کے گھر کیلے اور اچھی گھاس کے انبار لگوا دیئے جنہیں وہ کھاتا رہا اور آرام کرتے کرتے اپنا وعدہ بھول گیا
بھالو اور لومڑی نے چیتے کے پورے خاندان کو مار ڈالا اور ساتھ دینے والے جانور ڈر کے بھاگ گئے ۔۔چیتا بالکل اکیلا رہ گیا ۔وہ زخمی تھا ۔وہ ہاتھی کے گھر گیا اور اسے غصے سے بولا ۔۔۔”تم تو جنگل کے سب سے بڑے اور مضبوط جانور ہو، تم اگر میرا ساتھ دیتے ظالم بھالو کا صفایا ہوا ہوتا ۔۔۔مگر تم آرام طلب خود غرض ہو ۔۔اپنے عیش و آرام میں مست ۔۔۔
میری پیشن گوئی سنتے جاؤ ۔۔۔۔وقت ایسا آئے گا کہ تمہاری عیش پرستی ختم ہوگی ۔۔۔ابھی وہ تمہارے دوست ہیں ۔۔۔کیونکہ ان کو تم سے مطلب ہے ۔۔لیکن ایک دن بھالو اور لومڑی تمہارے گھر میں گھس کر تمہاری بیوی کو کھا جائیں گے، تمہارے بچوں کو مار ڈالیں گے ۔۔۔تمہارے گھر کو گرا دیں گے ۔۔۔تمہارے اس بڑے پیٹ کو پھاڑ دیں گے ۔۔۔۔تم اس وقت مجھے امداد کے لیے آواز دو گے ۔۔۔۔مدد کے لیے پکارو گے ۔۔۔۔میری فطرت میں مدد ہے ۔۔۔۔اسلئے میں مدد کے لیے آؤں گا مگر وقت نکل گیا ہوگا اورتمہاری حالت بد سے بدتر ہوئی ہوگی ۔
حسینی کالونی چھترگام کشمیر ، موبائل نمبر؛6005513109