نور شاہؔ
لل دید کالونی راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر; 8899637012
خاموش لمحوں کا کرب
اُن کی چار سالہ ازدواجی زندگی میں بڑا سکون تھا۔ اُن دو کے علاوہ اُن کے گھر میں ایک بزرگ خاتون بھی رہتی تھی، غفور کی ماں اور نغمہ کی ساس۔ اس لحاظ سے وہ اُن کے گھر کی ایک اہم رُکن تھی۔ غفور ایک مقامی بزنس کمپنی میں کام کرتا تھا اور تنخواہ بھی مناسب ہی تھی۔ اس آمدنی سے گھریلو اخراجات پورے ہوتے تھے لیکن کچھ بڑا سوچنے اور کچھ بڑا کرنے کی خواہش تو ہمیشہ جاگتی رہتی ہے۔ غفور کے ذہن میں بھی کمپنی کے بزنس میں کچھ بدلائو لانے کے لئے اندر باہر کی بہت سی باتیں اپنی راہیں ہموار کرچکی تھی لیکن وہ اُنہیں عملی روپ دینے میں ناکام ہورہا تھا کیونکہ کمپنی کے مالکان اپنی مرضی اور اپنی ضرورت کے مطابق کمپنی کو چلانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
غفور خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا اور اپنا کام انجام دیتا رہا لیکن اچانک اُسے ایک دن اپنے ملک سے باہر ایک بیرونی کمپنی میں جاب آفر ملا۔ اس نے اپنی ماں اور اپنی بیوی سے وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلد اُن کے آنے کے لئے ٹکٹ کا انتظام کرےگا۔ اس انتظامیہ میں دوبرس گزر گئے اور اس دوران غفور کی والدہ انتقال بھی کر گئیں۔ نغمہ گھر میں اکیلی رہ گئی۔ یوں تو معمول کی طرح نغمہ غفور کو روپیہ پیسہ ملتا رہا لیکن روپیہ پیسہ تنہائیوں کا جواب تو نہیں!
غفور نے نغمہ کو اطلاع دی کہ اب وہ کافی محنت، لگن اور ایمانداری سے کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہوچکا ہے۔ تنخواہ میں اضافہ ہونے کے ساتھ رہنے کے لئے گھر بھی ملا ہے اور دفتر آنے جانے کے لئے گاڑی بھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ نغمہ کے آنے کے لئے ٹکٹ کا انتظام بھی ہوچکاہے اور ایئر ٹکٹ رجسٹرڈ پوسٹ سے عنقریب ہی مل جائے گا۔ لمحہ لمحہ دروازے کی جانب دیکھنا اب نغمہ کی عادت بن چکی تھی لیکن نہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ ہی دروازے پر دستک دی۔
لیکن ایک دن ایک خاموش خاموش سے لمحے میں دروازے پر دستک ہوئی، دل کا دروازہ، کُھلنے کی صدا آئی۔ اس نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر پوسٹ مین ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھامے کھڑا تھا۔
’’آپ کا رجسٹر لیٹر آیا ہے۔ لیجئے یہاں دستخط کیجئے اور آج کی تاریخ بھی ڈال دیجئے۔
دروازہ بند کرنے کے بعد ہاتھ میں لفافہ تھامے وہ اپنی مخصوص جگہ پر آرام سے بیٹھ گئی اور پھر آہستہ سے لفافہ کھولا۔
اُس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اچانک غائب ہوگئی اور آنکھوں کی روشنی بجھ گئی۔ ہاتھ تھر تھرانے لگے۔۔۔۔ خاموش لمحوں کا کرب جاگ پڑا۔
لفافے میں کوئی ٹکٹ نہ تھا۔
طلاق نامہ تھا۔۔۔!
���
راز
جب ہم پہلی بار ملے تھے تو میں نے کہا تھا
’’میری طرف دیکھو نرملا۔ نظر یں ملانے سے دل کی کلی کھل اُٹھتی ہے۔‘‘
’’ہاں میں جانتی ہوں‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’شاید تم نہیں جانتے دیپک؟‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’میں نے اپنے اندھے پن کو۔۔۔ لینس سے ڈھانپ رکھا ہے‘‘۔
انتظار
کل شب ایک بار پھر میرے گھر کے دروازے وا تھے۔ ساری کھڑکیاں سوگوار تھیں۔ دیواریں ٹوٹتی سانسوں کے بھنور میں الجھ کر اداس اداس سی تھیں۔ جانے ہر شب ایسا کیوں ہوتا ہے۔ جانے کس کے انتظار میں میرے گھر کے دروزے کُھلے کُھلے سے رہ جاتے ہیں۔