ڈاکٹر نذیر مشتاق
سودا
جھونپڑ پٹی میں رہنے والے مفلوک الحال باشندوں کا کام لوگوں کے پھینکے ہویے کوڑا کرکٹ سے وہ ٹھوس چیزیں جمع کرنا تھا جن کو بیچ کر کچھ رقم وصول کرکے پیٹ کی آگ بھجانے کا انتظام کیا جاسکتا۔ مگر بستی کی بیحد خوبصورت لڑکی مندوری کو اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔وہ اس بستی میں اکیلی رہتی تھی۔ اس کے ماں باپ ہندو مسلم فساد میں مارے گئے تھے۔ پیٹ کی آگ بھجانے کے لئے اس نے ایک دن گھجندرو کی ہنسی کا مثبت جواب دیا وہ اسے اپنا دل دے بیٹھی اور ۔۔۔
وہ اسی کے ساتھ رہنے لگی۔۔۔مگر صرف۔۔ایک ماہ بعد وہ گھجندرو کو چھوڑ کر ایک ادھیڑ عمر بدصورت اور شرابی مرد دامندرو کے ساتھ رہنے لگی۔۔۔۔۔۔ایک روز وہ مٹک مٹک کر بستی سے باہر کہیں جارہی تھی کہ اس کے سابق عاشق گھجندرو نے اس کا رستہ روکا اور کہا۔۔۔تم مجھے چھوڑ کر کیوں چلی گئی۔
مندوری کے سفید دانت اس کے موٹے موٹے ہونٹوں کے درمیان چمک اُٹھے اور اس نے بالوں کی لٹ سے کھیلتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔تم ہررات مجھے کھانے کو آدھی روٹی اور آدھا پیاج دیتے تھے ۔اور دامندرو ہر رات دو روٹیاں اور آدھی کٹوری دال دیتا ہے ۔۔۔
پاپ
آج اس نے جینز اور ٹی شرٹ کی بجائے ا پنا پسندیدہ خان ڈریس اس لیے پہنا کہ اپنی گرل فرینڈ کو نئے سال کی آمد پر سرپرائیز دے۔ اس نے لباس پہنا، سر پر سفید گول ٹوپی رکھ لی گلے میں مفلر لٹکایا اور گھر سے نکلا۔۔۔۔۔۔۔
رستے میں بہت سارے لوگ جمع تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔۔۔۔گاو ماتا کی جے۔۔جے بجرنگ بلی۔۔۔۔گاے ہماری ماتا ہے۔۔۔۔وہ توڑ پھوڑ کررہے تھے۔۔گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کررہے تھے۔ ان میں سے کسی کی نظر خان ڈریس پہنے خوبرو نوجوان پر پڑی۔۔۔۔یہ سالا حرامی ہمارا دشمن ہے۔ پکڑو اور مارو۔کسی نے اس کا منہ مفلر سے بند کیا اور دوسروں نے اس پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کی وہ ادھ مرا سڑک پر گر پڑا۔۔۔۔۔سالے کو ننگا کرو
ان کے لیڈر نے حکم دیا۔۔۔ اس کے ننگے جسم کو دیکھ کر ایک غنڈے کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔ گرو گجب ہوا پاپ ۔۔ گور پاپ ہوا ہم نے اپنے ہی بھایی کو قتل کر ڈالا۔۔۔۔۔
اس سال کا آخری افسانچہ آپ کی خدمت میں۔۔۔۔۔۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر; 9 419004094