تبصرہ
بشیر اطہر
کہانی سننا بہت سارے لوگ پسند کرتے ہیں لیکن کہانی سُنانا بھی کئی لوگوں کا مشغلہ ہے اور کہانی کار اپنا لہو جلا کر ہی بہترین کہانیاں تیار کرتا ہے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے اور روز نئے نئے افسانہ نگار ادبی اُفق پر نظر آرہے ہیں ان ہی میں سے ایک افسانہ نگار جن کے افسانے پڑھ کر میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ اردو ادب آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور جن کا افسانوی مجموعہ ’’خدا کے گھر کا بٹوارہ‘‘ منصہ شہود پر آچکا ہے میں ان کا نام بڑے پیار اور محبت سے لینا چاہتا ہوں جی ہاں وہ ہیں تاج الدین محمد ابن محمد زین العابدین آپ کا یہ مجموعہ دوسو تئیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں پچیس افسانے شامل ہیں۔اگرچہ یہ مجموعہ تاج الدین محمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے مگر یہ افسانے پڑھ کر کافی خوشی اور مسرت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ افسانے نہیں بلکہ حقیقت ہے جو آپ بیان کررہے ہیں۔
خدا کے گھر کا بٹوارہ! واہ!! کیا نام ہے نام جانتے ہی انسان سمجھتا ہے کہ اس افسانوی مجموعہ میں کس قسم کے افسانے شامل ہوں گے، مگر قارئین یہ بات جان لیں کہ دراصل خدا کے گھر کا بٹوارہ ان کے ایک افسانے کا عنوان ہے جس میں آپ مسلمان قوم کی بے بسی اور اسلام پر خون کے آنسو رو رہے ہیں کہ کس طرح مولویوں نے اپنی دکانیں چمکانے کےلئے دین اسلام کو پارہ پارہ کیا اور ان مسلمانوں کو جن کا اللہ ایک ہے ،قرآن ایک ہے ،نبی ایک ہے، قبلہ ایک ہے، نماز قبلہ رو ہوکر سبھی اداکرتے ہیں، کوئی اب الگ الگ ناموں سے ہی پکارا جاتا ہے۔ کوئی شیعہ ہے تو کوئی سُنی، کوئی وہابی تو کوئی دیوبندی ،کو ئی حنفی تو کوئی مالکی وغیرہ ۔اب یہاں مسلکی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ایک دوسرے کو گلے لگنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ہر کسی نے مسجد بنائی ہے۔ہاں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسجد کیا ہے؟ مسجد بنیادی طور پر مسجد نبوی کی شبیہہ ہے ،اصل میں نماز مسجد نبوی میں ادا کرنی تھی مگر وہاں دن میں پانچ بار اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریزی کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اسی لیے اللہ نے قرآن مجید میں مسجدیں تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمارے رسولِ اسلامؐ نے مسجدیں تعمیر کرنے پر زور دیا ہے تاکہ ہم اپنے قریہ یا محلہ میں ہی اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنا گناہ گار سر جھکائیں۔مگر ہم نے اب ان مسجدوں پر الگ الگ مسالک کے سائن بورڈ نصب کئے ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے کترا رہے ہیں گویا یہ مسجدیں اب اللہ تعالیٰ کا گھر نہیں بلکہ یہ مختلف مکتب ہائے فکر کی دکانیں ہیں اور ایک دکان کا مال کھوٹا ہے جبکہ دوسری دکان کا مال کھرا ہے۔یہی باتیں ہمیں تاج الدین محمد سمجھانا چاہتے ہیں آپ نےاس کو اچھی طرح سے تمثیل کی شکل میں ڈال کر کہانی بنائی ہے اور چاہتے ہیں کہ اگر ایک عام جاہل شخص(خان صاحب) کو سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سبھی مسجدیں ایک جیسی ہیں تو یہ مولوی جو خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں، کیوں اس بات سے عاری ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی انہیں سچ کیوں نہیں اگلواتے، مگر کسی کی کیامجال جو یہ کہے کہ ہم سب ایک ہیں۔
تاج الدین محمد نے ایسے ہی کئی افسانے اس مجموعہ میں شامل کئے ہیں جن میں عام لوگوں کی بے بسی نظر آرہی ہے۔ دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی پوری طرح سے عیاں ہے۔ مثلاً اپاہج، کردش دوران، بوڑھا برگد، نیت کا صلہ، بدخصال، سوروپے کا نوٹ، رحم دل بوڑھا، میٹھے بول کا جادو، موت کے سوداگر، انوکھی چوری اور آخری فیصلہ ان کے بہترین افسانے ہیں، افسانہ بازگشت میں بھی انہوں نے مکار وعیار لوگوں کے چہرے ظاہر کئے ہیں، بےبس اور لاچار عورتوں کے ساتھ کس طرح سے ظلم کیا جا رہا ہے اور کس طرح انہیں یہ ظالم انسان اپنے حوس کا نشان بنارہا ہے۔ اگر عورت پاگل بھی ہو تو اسے بھی نہیں بخشا جارہا ہے اور اپنی حیوانی خصلت کا برملا اظہار کرتا ہے۔ایک قلمکار، شاعر یا افسانہ نویس قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے جو دیکھتا ہے یا محسوس کرتا ہے، اُسے اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتا ہے ،کبھی شاعری کے ذریعے، کبھی افسانوں کے ذریعے اور کبھی اپنے مقالات کے ذریعے۔
ایک اور افسانہ ’’پیر صاحب کے حجرے میں‘‘تاج الدین عورت ذات کی کم عقلی اور کم فہمی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ کس طرح یہ عورتیں کسی ڈھونگی بابا کے جھانسے میں آکر انہیں اپنے من کی بات بتاتے ہیں اور اپنی من کامنائیں پوری کرتی ہے، جن باتوں کوایک عورت اپنے محرم لوگوں کو بتانے میں شرم محسوس کر رہی ہے اُن باتوں کووہ بِلا جھجک پیر صاحب کے سامنے کہہ کر فخر محسوس کررہی ہے ،کیا ہوا ہے اس بے حس آدم ذات کو؟جس کے کارہائے نمایاں سے شیطان کو بھی شرم آرہی ہے۔ پیر بابا کی شکل میں آج کل بھیڑیے گوم رہے ہیں، ہاتھوں میں تسبیح لےکر یہ لوگ آوارہ گوم کر عورتوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، علم اور عقل سے عاری عورت انہیں سب کچھ لُٹانے پر راضی ہوجاتی ہے اور آخر میں یاتو وہ عورت کے مال کو لوٹ رہے ہیں یا عورت کی عزت کو تار تار کررہے ہیں، بس ان کا مقصد یہی ہوتا ہے۔تاج الدین صاحب نے اس افسانے میں یہ سب باتیں واشگاف کہی ہیں۔
اس افسانوی مجموعہ میں شامل افسانوں کے بارے میں اگر راقم بات کرے تو اس کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے، اس لیے یہاں میں نے اختصار سے کام لیا ہے۔تاج الدین کے کئی افسانے پڑھنے کے بعد راقم کو جھنجھوڑ کر رکھا، کیوں کہ ان افسانوں میں حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے اور وہ افسانے کم اور حقیقت زیادہ لگ رہے ہیں۔ ایسی تکنیک بھی ان کے پاس موجود ہے۔ دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تاج الدین محمد خود ایک بہترین انسان ہیں، جس میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کیونکہ جو کرب اور درد اُن کے افسانوں میں موجود ہے، وہ کرب اوردرد ایک اچھا انسان ہی محسوس کر سکتا ہے۔
یہ افسانوی مجموعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا ہے، اس کے جلد پر ایک خوبصورت تصویر بنی ہوئی ہے، تصویر میں کئی مساجد ایک ہی فریم میں شامل ہیں ،کاریگری کی وجہ سے سبھی مساجد کوایک ہی جیسا بنایا گیا ہے، مگر مساجد کے نام الگ الگ ہیں ،کسی مسجد پر اللہ کی مسجد نہیں لکھا ہوا ہے بلکہ سبھی پر اپنے مسالک کے اعتبار سے نام رکھا گیا ہے جو ہماری بے بسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تاج الدین محمد کا یہ افسانوی مجموعہ کئی معنوں میں دلچسپ اور اثر انگیز بھی ہے، وہ قوم کےلئے فکر مند ہیں اور اسی فکرمندی اور کشادہ ذہنی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں ایک سے بڑھ کر ایک بہترین افسانہ شامل کیا ہے۔
رابطہ۔7006259067
[email protected]