خورشید بسمل
خطہ پیر پنچال، جو سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت پاک سرحد کے قریب واقع ہے، اپنی جغرافیائی دشواریوں کے باوجود ہمیشہ ذہنی و ادبی روشنی کا گہوارہ رہا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں کے دامن میں بسا یہ علاقہ اپنی ادبی روایات کی بنا پر نہ صرف منفرد شناخت رکھتا ہے بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنی ذہنی اپج اور ادبی دلچسپیوں کے ذریعے قومی ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔تقسیم ہند سے قبل اور بعد، پیر پنچال میں ادب و ادیب کا رشتہ کبھی بھی کمزور نہیں ہوا۔ اس خطے کے اہلِ قلم نے ہمیشہ اپنی ادبی خدمات سے ملک کے ادبی منظرنامے کو مالا مال کیا۔ کرشن چندر، دینا ناتھ رفیق، چراغ حسن حسرت جیسے مشاہیر نے اپنی تحریروں سے اس خطے کی ادبی فضیلت کو جِلا بخشی۔ تقسیم کے بعد بھی یہاں کے ادیبوں نے ادب کی شمع کو فروزاں رکھا۔شہباز راجوروی، فدا راجوروی، امین انجم، ایوب شبنم، احمد شناس، فاروق مضطر اور دیگر ادیبوں نے اپنی تحریروں سے اس خطے کی ادبی روایت کو مزید تقویت دی۔ گوجری اور پہاڑی زبانوں میں بھی ادبی تخلیقات کی بڑھوتری نے نئے قلم کاروں کو ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کی تحریک دی۔پہاڑی زبان کے شعرا میں صابر مرزا، رشید قمر، پرویز ملک، قیوم ساحل، صادق شاد، خورشید کرمانی، خورشید جانم، اور فاروق انوار جیسے نام شامل ہیں، جب کہ افسانوی صنف میں پرویز مانوس، کے. ڈی، مینی، اقبال نازش، زنفر کھوکھر، اور اقبال شال کا ذکر خصوصاً قابل ذکر ہے۔
اقبال شال کا افسانوی مجموعہ “تریڑاں” 2024 کے اواخر میں شائع ہوا۔اقبال شال، جو انگریزی ادب اور سماجیات کے طالب علم رہ چکے ہیں، ایک طویل عرصے تک تدریس کے شعبے سے منسلک رہے اور 2012 میں سبکدوش ہوئے۔ ان کی گہری فکر اور سماجی مسائل پر باریک بینی سے تحقیق نے ان کے تخلیقی سفر کو ایک منفرد رنگ دیا ہے۔”تریڑاں” پندرہ افسانوں پر مشتمل ایک شاندار تخلیق ہے جس کا پیش لفظ جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی کے سابق سیکرٹری اور نامور ادیب ظفر اقبال منہاس نے لکھا ہے۔ فاروق انور مرزا اور اقبال نازش نے بھی اس مجموعے پر تبصرے کیے ہیں، جن میں اقبال شال کے تخلیقی سفر کی تیز رفتاری اور گہرائی کا اعتراف کیا گیا ہے۔
“تریڑاں” کے افسانے موجودہ صدی کی سماجی تبدیلیوں، جدیدیت کی اندھی دوڑ، مذہبی عقائد پر حملوں، رشتوں کے بدلتے مفاہیم، مشینی زندگی کی نفسیاتی کشمکش، اور سوشل میڈیا کے اثرات جیسے موضوعات پر گہری نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان افسانوں میں انسانی جذبات کی تصویر کشی قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتی ہے۔اقبال شال نے ان چیلنجز کو نہایت خوبصورتی سے افسانوی انداز میں پیش کیا ہے۔ افسانہ “تریڑاں” مشینی دور میں موجود توہم پرستی اور کشمکش کا مظہر ہے، گویا ایک سماج کے اندر دوسرا سماج آج بھی زندہ ہے۔ “فیک” اور “بریک اپ” سوشل میڈیا کے اثرات پر مبنی افسانے ہیں جو انسانی جذبات اور شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔”تریڑاں” فنی، تکنیکی، لغوی، اور مواد کے اعتبار سے پہاڑی زبان و ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ یہ مجموعہ قاری کے علمی وسعت کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پہاڑی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس مجموعے کی افسانوی گہرائی اور وسعت ادب کے طالب علموں کے لیے بھی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔