اسد مرزا
سال 2025میں عالمی اور علاقائی سطح پر کافی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جہاں ایک طرف ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے وہیں یوروپ اور دیگر افریقی ممالک میں بھی کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔یکم جنوری کو آئیوری کوسٹ کے صدر الاسانے اواتارا نے اعلان کیا کہ فرانس کی فوجیں اس مہینے کے آخر تک ان کے ملک سے نکل جائیں گی۔ 26 دسمبر کوچاڈ میں فرانس نے فایا۔لارجیو میں اپنا فوجی اڈہ چاڈ کی حکومت کے حوالے کر دیا اور اس سے قبل نومبر میں دفاعی تعاون کے معاہدے کے خاتمے کے بعد فوجیوں کی واپسی شروع کر دی۔ 3 دسمبر کو سینیگال کے صدر Bassirou Diomaye Faye نے تمام فرانسیسی فوجی اڈوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موجودگی ملک کی قومی خودمختاری کے ساتھ ’متضاد‘ہے۔ سینیگال، آئیوری کوسٹ اور چاڈ نے تین دیگر مغربی افریقی ممالک مالی، نائجر اور برکینا فاسو کے ساتھ ایک نیا علاقائی اتحاد قائم کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ فرانسیسی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کرنے سے خطے میں فرانس کے گھٹتے ہوئے اثر و رسوخ کو شدید دھچکا پہنچا
ہے۔ دراصل فرانس ان ملکوں کو آزاد کرنے کے بعد وہاں پر کسی نہ کسی طرح اپنی موجودگی کو قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن اب صورتحال یکسرفرانس مخالف ہورہی ہے۔ان افریقی ممالک سے فرانس کے انخلاء کا مطالبہ چار وجوہات پر مبنی ہے۔ پہلا، قومی خودمختاری کے ساتھ عدم مطابقت پر بیانیہ۔ فرانس کے چاڈ میں 1000آئیوری کوسٹ میں 600 اور سینیگال میں 350 فوجی موجود تھے ۔ ان ملکوں کی آزادی کے بعد سے فرانس نے اپنے اقتصادی، سیاسی اور فوجی اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے ان سابق کالونیوں کے ساتھ نوآبادیاتی معاہدے کیے تھے، جنہیں ‘Françafrique’ کہا جاتا ہے۔ سینیگال اور آئیوری کوسٹ میں فرانسیسی فوجی آپریشن بارکھان کے حصے کے طور پر 2014سے تعینات ہیں۔ چاڈ کے لیے دفاعی معاہدہ کئی دہائیوں سے موجود ہے اور اس کی سلامتی کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔ چاڈ کے صدر مہات دبی کا کہنا ہے کہ دفاعی معاہدوں کو ختم کرنا قومی خودمختاری کو واپس حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ آئیوری کوسٹ اور سینیگال نے ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنے والے باہمی تعلقات کے لیے یکساں حکمت عملی قائم کرنے اور یکساں موقف اپنانے پر زور دیا ہے۔ دوسرا، فرانسیسی موجودگی پر عوامی عدم اطمینان۔ فرانسیسی فوجی 2014 سے مغربی افریقہ میں اسلامی ریاست اور القاعدہ سے منسلک باغی گروپوں سے لڑ رہے تھے، تاہم فرانسیسی فوجی علاقے میں شورش کو روکنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ یہ شورش پورے خطے میں پھیل کر شدت اختیار کر لی ہے۔ اس کی وجہ سے ان ممالک نے نئے عوامی مطالبے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی مخالف جذبات کو بھی جنم دیا۔تیسرا، حال ہی میں بہت سے مغربی افریقی ممالک نے روایتی نوآبادیاتی ممالک کے بجائے نئے شراکت داروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متنوع بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ مغربی افریقہ، مالی، نائجر اور برکینا فاسو کی فوجی حکومتوں نے بغاوت سے لڑنے کے لیے روسی کرائے کے فوجیوں کے ساتھ فوجی تعلقات استوار کیے ہیں۔ فوجی رہنماؤں کے لیے روسی کرائے کے فوجی جمہوری اقدار کی پاسداری کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں، جس سے کہ وہ اپنے ملک میں اپنی آمریت کو قائم رکھنے میں کامیاب رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس نے افریقہ میں ایک بہتر سیکورٹی فراہم کنندہ کے طور پر کامیابی کے ساتھ اپنی ایک نئی امیج قائم کی ہےاور اس کے ذریعے وہ ان ممالک سے معاشی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اافریقہ کے لیے فرانسیسی انخلا کا مطلب فرانس کے کئی صدیوں پر محیط اثر و رسوخ کا خاتمہ ہے۔ تاہم، مالی، نائیجر اور برکینا فاسو میں فرانسیسی انخلاء اور روس کی آمد نے ان ممالک میں شورش روکنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ بلکہ یہ تینوں ممالک انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2024 میں سرفہرست ہیں۔ مالی، نائجر اور برکینا فاسو کے درمیان ساحل ریاستوں کے نئے اتحاد کے ساتھ خطے میں فوجی حکومتیں مضبوط ہوئی ہیں۔ مشترکہ فرانسیسی مخالف جذبات ممکنہ طور پر چاڈ، سینیگال اور آئیوری کوسٹ کو ساحل اتحاد میں شامل ہونے اور علاقائی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔
ان ممالک سے دستبرداری ہونے کے بعد فرانس پر چار مضمرات اثر انداز ہوں گے۔ پہلا ‘Françafrique’ کی موت۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے تحت انخلا ’’فرانسفریک‘‘ کے خاتمے کی نشاندہی کرتا ہے جو ایک مضبوط اقتصادی اور سفارتی موجودگی کو برقرار رکھنے کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ دوسرا، سیاسی اثر و رسوخ میں کمی اقتصادی تعلقات کو متاثر کرسکتی ہے۔ 2010 کے بعد سے صدر اواتارا فرانس کی حمایت کے ساتھ اقتدار میں قائم رہے ہیں۔ تاہم 2020 میں سابق صدر گباگبو کے دوبارہ ابھرنے نے سیاسی استحکام کو چیلنج کیا۔ سیاسی اثر و رسوخ کے بغیر فرانس کے اقتصادی مفادات کو پورا کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ تیسرا، کم ہوتی ہوئی فوجی موجودگی فرانس کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔ فوج نے سیاسی اور اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے فرانس کے حامی افریقی رہنماؤں کی حمایت کی ہے۔ فرانسیسی مسلح افواج آئیورین خانہ جنگی کے بعد سے اقوام متحدہ کی کارروائیوں کی حمایت میں تعینات ہیں۔ اس لیے فرانس کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور بین الاقوامی اقدار اور انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا نئی صورتحال میں مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ چوتھا، مالی، برکینا فاسواور نائیجر نے غیر ارادی طور پر فرانسیسی فوجیوں کو ملک بدر کردیاہے، جن کی جگہ اب یا تو روسی کرائے کے فوجیوں نے لے لی ہے اور ان ممالک کے فوجی یا تو خود باغی مہموں میں شامل ہیں یا فوجی حکومت کے مخالفین کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ان سب نے مل کر فرانسیسی اثر و رسوخ کو قائم رکھنا ناممکن بنا دیا ہے۔
برصغیر افریقہ میں تنازعات کے جغرافیائی سیاسی وجوہات کی بنا پر ان ممالک میں یورپ کی کم ہوتی ہوئی موجودگی اور وہاں پر روس اور چین سے مقابلہ سب سے کم توجہ کا مرکز تھا۔ کیونکہ یورپی یونین بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظر نامے میں یوکرین میں جاری جنگ سے پیدا سیکورٹی کے مسائل اور بڑھتے ہوئے معاشی تناؤ جیسے مسائل کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں۔ لہٰذا خود مختاری، تارکین وطن اور یورپ مخالف جذبات سے نمٹنا جیسے موضوعات پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میںجرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اپنی ترقیاتی فنڈنگ کو ان افریقی ممالک کے لیے مکمل طور پر روک دیا ہے، جس کے نتیجے میں فوجی بغاوتوں میں اضافہ ہواہے۔اس کے ساتھ ہی افریقہ میں سیاسی اور سیکورٹی موجودگی حاصل کرنے کے لیے روس نے فوجی خلا کو پُر کیا ہے جب کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے اپنے اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ ان ملکوں کے ساتھ یورپی یونین کا تجارتی سرپلس 2022 اور 2023 کے درمیان 55 بلین یورو سے گھٹ کر35 بلین یورو یعنی کہ 15 فیصد کم ہو گیا ہے۔ اس کے مقابلے میںچین 70 بلین یورو سے زیادہ کا سرپلس برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔مجموعی طور پر روس کو فرانسیسی فوجیوں کے انخلا سے فائدہ ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا اس کے اثرات یورپ کے مختلف ممالک میں دائیں بازو کی حکومتوں کو زیادہ مضبوط کرسکیں گے یا نہیں۔ ان جماعتوں کے 2024ء کے سیاسی منشور اس سلسلے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں معاشی اقدام کے بجائے سرحدوں اور تارکین وطن کے انتظام میں زیادہ حفاظت پر مبنی ہیں۔ آنے والے سال میںیورپ کی خارجہ پالیسی کا نقطہ نظر زیادہ باطنی نظر آئے گا، جس میں یورپی یونین کے چند اراکین چین سے مسابقت کا سامنا کرتے ہوئے افریقہ میں مارکیٹوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
دراصل آنے والے وقت میں برصغیر افریقہ ہی وہ مقام ہوگا جہاں پر کہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی سوچ کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ جنگ بڑی سطح تک معاشی جنگ ہوگی کیونکہ مستقبل میں اگر آپ کسی ملک کی معیشت پر اپنا کنٹرول قائم کرسکتے ہیں تو وہی آپ کی جیت ثابت ہوگی جیسے کہ اب تک چین نے اس فارمولے کو اپنایا ہے۔ لیکن اس میں اسے زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ چین روس کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی قائم کرے اور ان افریقی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)