۔ 8ماہ تک باہر کی منڈیوں پر انحصار، ملک میں پیداوار کے لحاظ سے جموں کشمیر کا نمبر 15واں
اشفا ق سعید
سرینگر // جموں کشمیر میں سبزیوں کے مختلف اقسام کی باہر کی ریاستوں اور منڈیوں پر انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کچھ روز تک سرینگر جموں شاہراہ بند ہونے کے ساتھ ہی یہاں سبزیوں کی قحط پڑتی ہے۔ یا اگر باہر پنچاب، ہریانہ اور دلی میں سیلاب آجاتا ہے تو یہاں سبزیوں کے بھائو آسمان کو چھو جاتے ہیں۔اسکی بنیادی وجہ یہاں زرعی اراضی کو ختم کرکے اسے میوہ باغات میں تبدیل کرنا ہے۔حالیہ برسوں میں یہاں سبزیوں کی کاشت دھان کی فصل کی طرح نہ ہانے کے برابر ہوگئی ہے۔جون، جولائی ، اگست اور ستمبر یعنی صرف 4ماہ کیلئے گھریلو پیداوار نکلتی ہے اور سال کے 8ماہ تک ہر طرح کی سبزیاں باہر کی منڈیوں سے در آمد کرنی پڑتی ہیں۔آج ہم یہاں آلو ی پیداوار کا ذکر کریں گے جس کے لئے وادی کشمیر، خطہ چناب اور پیر پنچال انتہائی زرخیز علاقے ہیں۔5000 فٹ سے اوپر کی اونچائی والے جتنے علاقے ہیں،وہاں آلو کے مختلف اقسام کی فصل پیدا کی جاسکتی ہے۔لیکن محکمہ ایگریکلچر کی غیر شعوری لاپر واہی، متواتر حکومتوں کی جانب سے مجرمانہ کوتاہی ، زرعی یونیورسٹی کی طرف سے ترجیحات میں شامل نہ کرنے اور زمینداروں کی جانب سے عدم دلچسپی کے باعث یہاں آلو کی فصل بھی وافر مقدار میں اگائی نہیں جاسکی تاکہ جموں کشمیر کو کم سے کم آلو باہر کی منڈیوں سے نہ لانا پڑتے۔پوٹیٹو ڈیولپمنٹ آفسر لال منڈی سرینگر نصیر خان،جو وادی بھر میں آلو کی کاشت کے حوالے سے اعدادوشمار رکھتے ہیں، نے کشمیر عظمیٰ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے ہر حصے میں آلو کی کاشت ہوتی ہے اور جموں میں بھی اسی طرح آلو کی فصل اگائی جاتی ہے۔تاہم انکا کہنا ہے کہ اسکے باوجود جموں کشمیر میں اس قدر آلو کی پیدوار نہیں ہوتی جتنی ہمیں ضرورت ہے تاکہ ہمیں باہر کی منڈیوں پر انحصار نہ کرنا پڑتا۔انکا کہنا ہے کہ سرسری اندازے کے مطابق وادی میں 800ہیکٹر اراضی پر لوگ آلو کی کاشت کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ ایگریکلچر کسانوں کو سبسڈی پر آلو کے ایسے بیچ فراہم کررہا ہے جس کی پیداوار بہت زیادہ ہو۔انہوں نے کہا کہ وادی میں سالانہ تقریباً 80,000کوئنٹل آلو کی پیداوار ہوتی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کی 27ریاستوں میں آلو کی پیداوار میں جموں کشمیر کا 15واں نمبر آتا ہے حالانکہ آلو کی پیداوار میں جموں کشمیر کی اراضی سب سے زیادہ زر خیز اور آب و ہوا کے لحاظ سے سب سے مناسب جگہ ہے۔ملک کی کلہم پیداوار میں جموں کشمیر کا حصہ محض 0.35 فیصدہے ۔جموں کشمیر میں ابھی بھی جالندھر اور ملک کی دیگر کچھ پوٹیٹو ریسرچ مراکز سے آلو کے بیج در آمد کئے جارہے ہیں جنہیں محکمہ ایگریکلچر کے سیڈ فارموں میں بویا جاتا ہے اور وہاں سے اسے زمینداروں کو فروخت کیا جارہا ہے۔پوٹیٹو ڈیو لپمنٹ آفیسر کا کہنا ہے کہ رعایتی نرخوں پر آلو کے بیج فروخت کرنے کے باوجود محکمہ کو ہر سال اوسطاً ایک کروڑ سے زیادہ کی آمدنی ہوتی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ میٹھا آلو کے لئے معتدل آب و ہوا اور موسم کی ضرورت ہوتی ہے اور سرد علاقوں میں اگائے جانے والے آلو کو بیماریوں کا کم خطرہ بھی ہوتا ہے اور اس میں محنت بھی کام لگتی ہے۔ڈائریکٹر ایگریکلچر کشمیر نے اس کے برعکس اعدادوشمار پیش کئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ حالیہ دو برسوں میں آلو کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا ہے اورکشمیر نے دو سال سے پڑوسی ریاستوں پر اپنا انحصارکم کر دیا ہے۔ڈائریکٹر کے مطابق کشمیر سالانہ 45000 میٹرک ٹن آلو پیدا کرتا ہے اور تقریباً 2500 ہیکٹر رقبہ آلو کی کاشت کے تحت ہے۔ تاہم کشمیر کی سب سے بڑی منڈی( فروٹ منڈی پارم پورہ) کے صدر بشیر احمد بشیر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کشمیر میں آلو کی جتنی پیدوار وتی ہے اس سے یہاں کی ضروریات پورا نہیں ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ صرف 20فیصد ضروریات پوری ہوتی ہیں جبکہ 80فیصد کو باہر کی منڈیوں سے پوری کی جارہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سال بھر اوسطاً 20سے 30ٹرالر آلو کے ہر روز منڈی میں پہنچ جاتے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں یا نہیں۔