شہبازراجوروی کو جموں وکشمیر کے شعری افق پہ طلوع ہوئے ایک طویل مدت ہوچکی ہے ۔انھوں نے اپنی علمی ،ادبی وشعری کاوشوں سے نہ صرف اپنے خطہ پیر پنچال کا نام روشن کیا ہے بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے چند نمائندہ شعرا کی کہکشاں میں ان کا شعری قد اپنے شعری وقار سے خاصا تابندہ اور نمایاں ہے۔شاہباز راجوروی کے حوالے سے یہ بات ہم اردو والوں کے باعث افتخار بھی ہے اور باعث حیرت بھی کہ وہ اردو، انگریزی، فارسی،کشمیری،پہاڑی اور گوجری زبانیں نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان میں خاص کر اردو،کشمیری، پہاڑی اور گوجری میں ان کی ادبی تخلیقات ان کی ہمہ جہت لسانی شعور وادراک کا ایک ٹھوس ثبوت بھی ہیں ۔اردو میں ان کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ’’انداز نظر‘‘دو شعری مجموعے’’لمحے لمحے‘‘ اور ’’اعراف‘‘کشمیری میں ان کے چھ شعری مجموعے،پہاڑی میں ایک شعری مجموعہ اور گوجری میں اگر چہ کوئی مجموعہ نہیں چھپا ہے لیکن گوجری میں بھی ان کی نظمیں ،غزلیں،منقبت،نعتیں اور متعدد مضامین اخبارات و رسائل میں چھپ چکے ہیں۔گویا معلو م یہ ہوا کہ شاہباز راجوروی کی ذات گرامی اسم بامسمیٰ ہونے کے ساتھ نہ صرف اردو کے بلکہ علاقائی زبانوں کے ایک کہنہ مشق ادیب کی حیثیت سے بھی معروف ہیں ۔
’’اعراف‘‘شاہباز راجوروی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔190 صفحات پہ مشتمل یہ شعری مجموعہ زیادہ تر آزاد نظموں اور کچھ غزلوں ، قطعات اور منتخب اشعار سے مُزیّن ہے۔اس مجموعے کی شعریات باربار اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ شاعر کے سامنے ہرروز کوئی نہ کوئی گناہ کبیرہ ہورہا ہے اور وہ خود اخلاقی وروحانی قدروں کا نوحہ گر ہوکے رہ گیا ہے ۔سفاکیت،جبروتشدّد،ظلم وزیادتی اور خوف و دہشت نے ایک پُر سکون اور آسودہ حال زندگی کی راہیں مسدود کردی ہیں ۔ایسے پُر آشوب اور وحشتناک ماحول کو شاعر موصوف نے اپنی آزاد نظموں میں جس شعری آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے وہ قاری کو متاثر کرتا ہے۔شاعر کے جذبات واحساسات اور اس کی فکری اساس سے ایک نیک انسان کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔وہ امن و سلامتی اور خیر خواہی کا متمنی ہے ۔چنانچہ اس کے ذہن ودل میںاچھا دیکھنے ،سننے اور سوچنے کے ساتھ عملی طور پر کچھ اچھا کر گزرنے کی امنگ ہے ۔مذکورہ شعری مجموعے میں شاہباز راجوروی نے اپنی پیرانا سالی کے باوجود شعری روایت کا احترام کرتے ہوئے روایت میں جدّت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ایاز رسول نازکیؔ نے بھی اس صداقت کااعتراف ایک جگہ ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اعراف‘‘میں شاہباز کی نظمیں،غزلیں اور چند قطعات شامل ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ اس مجموعے کے نظموں کے حصّے نے راقم الحروف کو بہت زیادہ مثاثر کیا ۔عالمی ادبی روایتوں میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک خوش کُن تغیر پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اسی کی بدولت آج کے دور میں عالمی ادب شعری تصنّع اور بناوٹی لہجوں سے آزاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔راست اظہار کی کیفیت نے مشکل گوئی کو بے دخل کیا ہے اور خود آکر سنگھاسن پر بیٹھ گیا ہے۔دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق سیدھے سیدھے صاف صاف بات کرنے کو اولیت اور فوقیت نصیب ہوتی گئی ہے‘‘1
(1۔مشمولہ ’’اعراف‘‘تکبیر پبلی کیشنز گاو کدل سرینگر 2012ص9تا 10)
شاہباز راجوروی نے اپنے سماج ومعاشرے میں رونما ہورہے جن حالات وواقعات پر جس طرح کا ا حساساتی ردّعمل شاعرانہ لب ولہجے میں پیش کیا ہے وہ قابل توجہ اور چشم کُشا ہے۔لگتا ہے انھوں نے پُر آشوب حالات کے عطا کردہ درد وکرب اور لایخل مسائل ومعاملات میں ایک خوشگوار تبدیلی کی تمنا کااظہار کیا ہے۔حیات وکائنات کے چکر ویو ہ میں ان کی اضطرابی کیفیتوں کا موثر اظہار ان کی مندرجہ ذیل آزاد نظموں کے شعری ٹکڑوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے :
ساکت وسامت پرندے۔آدمی۔ندیاں۔حیات
گیت روٹھے۔بالیاں ماتم زدہ۔مدفون سارے قہقہے
کھیت لمبی خامشی اوڑھے ہوئے
مختصر دنیا ہے اب محنت کشوں کی اداس
کانپتی سانسوں میں سرگوشی ادھر
جھونپڑوں میں بجھ گئے سرشام مٹی کے دیئے
چیختی ہیں ۔سرسراتی۔سرخ اڑتی ’’گولیاں‘‘
سینہ دہلاتی ہے’’ گولوں‘‘ کی گرج
(نظم ،تناظر)
شام کے سرمگیں سائے
اختیار نہیں ۔ قہقہے ۔ آنسو
کانپتے جذبات
سرد سلیں ہیں جسموں پر
یخ بستہ زمزمے سارے
بے موسمی پرندوں کے
’’وقت بیزار‘‘گل داودی‘‘
جاگتا ہے آنگن میں
(نظم،اجنبی دیس کے مسافر)
کیا ہے تاراج غارت گر وں نے
امید آشیاں میں روز وشب تنکے چنے تھے
جہاں بس خون کی بارش سے
بھیگے ہیں شب وروز
تمہارے ہجر میں ہے خواب بنتا
کوئی دیوانہ ۔نوحہ سن سکا ہے
(نظم،نوحہ)
مُروّت ،مواخاۃ ۔ ہمدردیاں
اجنبی شہر کی لفظیات
مرے دور کے لوگ منکر ہوئے
نیکیاں اب نہیں لازمی
فقط سیم وزر کی ہوس،بے محابامشینی تصّور
پوست وگوشت کا اک ہیولیٰ ہے یہ آدمی
(نظم،سانحہ)
شاہباز راجوروی کی ان آزاد نظموں میں ایک سراسیمگی اور حزنیہ ماحول کی منظر کشی در آئی ہے۔ان کی متعدد نظموں میںوقت اور حالات کی ستم ظریفیاںہمیں کہیں چونکاتی ہیںاور کہیں رُولاتی ہیں۔بہت سی نظموں میں طنز ورمزاور اصلاحی جذبہ کار فرما ہے۔آزاد نظموں کے علاوہ چند ایک پا بند نظموں میں بھی انھوں نے اپنے سماج ومعاشرے کی بھیانک صورتحال پر اور بالخصوص اس سیاسی وسماجی سسٹم پر طنز ورمز کے تیر چلائے ہیں جس معاشرے میں رقص ابلیس برابر جاری ہے اور صاحب اقتدار لوگوں پر بے حسی کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں ۔اس سلسلے میں شاہباز راجوروی کی ایک نظم ’’نوحہء روز وشب‘‘سے ماخوذ چند بند ملاحظہ ہوں:
قتل گاہ کہیے،شہادت گاہ۔سارے مضمرات
خوں چکاں،خوں ریز،خوں افشاں حیات
نالہ و فریاد و ماتم یا صدائے احتجاج
اذن اتنا بھی نہیں ہے کار گا ہ بے حیات
…….
سرکشی فرمانرا، بے سود سب علم و دلیل
بے زباں مظلومیت ہے کچھ نہیں ہے قال وقیل
وقت کے منصف گراں گوشی میں ہیں مست خمار
ترجماں کیسے بنیں اس شہر کے گونگے وکیل
…….
یہ سیاست کار او ر محراب و منبر کے امیں
اک ریا کاری ہے،رہزن لے گئے سوز ویقیں
قول مبہم کہہ کے بیچاروں کو غلطاں کر گئے
سادہ لوح ، معصوم روحوں کا لُٹا دنیا و دیں
…….
بے خداوں کی خدائی ہے یہاں پر ا لحذر
نوع انساں کی تباہی ہے یہاں پر الحذر
وقت کے ابلیس ہیں اور فتنہ زا ماحول
ایک ا ٓشوب سمائی ہے یہاں پر الحذر
…….
شعری مجموعہ’’اعراف‘‘میں شاہباز راجوروی کی دور رس نگاہوں نے نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کے بحرانی حالات و واقعات کو مقید کیا ہے بلکہ انھوں نے اکیسویں صدی میں بدلتے عالمی منظرنامے کو بھی سوشل میڈیا کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے ایک مخلص ، خیر خواہ اور امن پسند انسان کی حیثیت سے ان تمام شرور اور شرپسند عناصر کو قابل لعنت وملامت ٹھہرایا ہے جس کے باعث اخلاقی،روحانی اور سیاسی وسماجی اقدار وروایات قصئہ پارینہ یا ذہنی پسماندگی قرار پائی ہیں ۔ان کی آزاد نظموں میں ناخوشگوار حالات وواقعات کی تلخیوں کا بیان تو ہے ہی لیکن ان کی غزلوں میں بھی ایک طرح کی اضطرابیت وسیمابیت آگئی ہے ۔دراصل انھوں نے حالات وواقعات اور زندگی کے نشیب وفراز کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے ۔ انھوں نے ظالموں کے ظلم اور منافقوں کی منافقت کا زہر پیا ہے ۔ ریاکاروں کی ریاکاری اور اپنے پرایوں کی فریب کاری کا دکھ درد جھیلا ہے ۔ یقین نہ آئے تو اس موقعے پہ شاہباز راجوروی کے مندرجہ ذیل غزلیہ اشعار پر دھیان دیجیے:
ہم ہیں آد م خور بستی کے مکیں
کون قا تل ؟کون منصف؟ کیا یقیں
آسیہ کا قتل کرتا ہے سوال
کن ضمیروں کا قلم ہوگا امیں
…….
یادوں کے سب چراغ سرہانے جلا رکھے!
ظلمت کدے سے رات بھر یوں جھوجھتا رہا
بیساکھیوں پہ لوگ تھے کتنے درازقد
آئے زمین پر تو سایہ سمٹ گیا
منا فق لوگ ہیں چہرے بدلتے
فقیروں کو یہ حیرانی نہیں ہے
…….
درد کی بستی سوچ سبیل
کون ہے منصف کون وکیل !
دہک رہی نمرود کی آگ!
مانگ خدا سے آج خلیل
…….
یاد رہیں گے صدمے سارے
وقت نے کیا کیا چھین لیا تھا
…….
ہمارا شہر ہے طرفہ تماشہ
اگائے بھوک، اور فتنے جگائے
…….
خاموشی جُرم حق گوئی پہ پہرے
عجب افتاد میں وہ جی رہا ہے
…….
فرشتے شہر میں بستے نہیں ہیں
مگر انسان کیوں ملتے نہیں ہیں
…….
با خدا کوئی نہیں ہے ، بے خدا کوئی نہیں
ایک صحرا جی رہا ہوں رہ نما کوئی نہیں
…….
ہمارے شہر کے اطوار بدلے
سچائی مر رہی ہے چیختا ہوں
نئی نسلوں نے بیچے میرؔ وغالبؔ
تعاقب کر رہے ہیں بھاگتا ہوں
…….
نفرتیں پالتے ہیں سینوں میں
اور سجدے دراز کرتے ہیں
…….
بھیڑ میں کھو گیا لوگو
ڈھو نڈنا پڑ گیا چہرہ
…….
ہم سے شاہباز یہی بھول ہوئی ہے
ہم نے سمجھا کہ ہر شخص ولی ہے
…….
جن کی شرافت فتنہ زا جن کا عمل فساد
ایسے فقہیہ الاماں ، ایسے امام الحذر
…….
’’اعراف‘‘میںشامل بہت سی نظمیں،غزلیں اور قطعات زندگی کے فکر وفلسفے اور زماں ومکاں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔مذکورہ مجموعے کے شعری مشمولات کی ایک دلچسپ اور نمایاںخوبی یہ بھی ہے کہ شاعر نے فطری ماحول ومناظر ،حالات وواقعات اور اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کو دیدہ وری کے ساتھ تاریخی یادوں میں محفوط کردیا ہے ۔شاہباز کا شعری ڈکشن دل کو موہ لینے والا ہے۔ہر نظم ،غزل اور قطعات کے آخر پہ تاریخ درج کی گئی ہے ۔لگتا ہے شاہباز راجوروی کے ذہن ودل میں یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو انھیں نہایت عزیز ہے ،ان کا کلام قابل قدر اور زندگی آمیز ہے جس کی قرات سے علم وآگہی اور معنی آفرینی کی کئی تہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
……………………
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
فون نمبر9419336120