غازی نصیب الدین
خالق کائنات نے انسانیت کے لیے جو دین چُنا ہے وہ عین انسانی فطرت اور اس کی سکت ِ زندگی کے مطابق ہے۔ایک ایسا دین اورایک ایسی طرزِ زندگی جو انسانیت کے لئے قطعاً مجبوری اور زبردستی کی راہیں دراز نہیں کرتے،بلکہ انسان کی اپنی سکت اور طاقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان کواپنی استطاعت اور اپنے اعمال کے محور میں رکھا گیا ہے گویا اگر کسی کو مفلوک الحال صورت حال کا سامنا ہو لیکن اُسے مغلوب الحال نہیں رکھا ہے۔انسان کی قابلیت،اس کی قوت اور استعداد کو ملحوظ نظر رکھ کر خالق ِ کائنات نےاس کے سامنےدین کے جائز معاملات و مطالبات رکھ دئے ہیںاوراُس پر کسی قسم کا ایسا کوئی بوجھ نہیں لادا ہے کہ وہ اُٹھا نہ پائے۔ خود خالق کائنات اپنی کتاب میں فرماتا ہے ۔ؕ ’’ اللہ کسی بھی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہے۔ ‘‘اس فرمانِ الٰہی سے ہم بآسانی اُس تصور سے آگاہ ہوسکتے ہیں کہ دین کے تقاضے نہ انسانیت پر بوجھ ہیں اور نہ ہی انسان کی جبلت کے برعکس ہیںبلکہ ایسےسہل اور آسان ہیں جو انسان کو صحیح اور اعتدال کے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ خالق کی جانب سےانسان سے ہرگز ایسا کوئی بھی مطالبہ نہیں، جس سے اُس کا وجود مشکل یا مصیبت میں مبتلا ہوجائے۔ دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے دوران اسلام کٹھن ذرائع استعمال کرنے سے روکتا ہے اور اُن ذرائع کو استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے جس سے اُس کی زندگی تشدد اور جارحیت سے پاک ہو۔عبادات کے دوران وہ ایسے اقدامات نہ کرے جس سے اس کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے رُک جائے۔عبادات میں میانہ روی اپنانا اللہ کا حکم ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے اور سختی نہیں کرنا چاہتا ہے۔‘‘
خالق کائنات اپنی مخلوق سے ہمدردی اور شفقت کا اظہار اس شدت کے ساتھ کرتا ہے کہ والدین کی شفقت اور اُلفت مغلوب تر ہوجاتی ہے۔ اللہ نے ہم سب کو پیدا کیا ہے تو اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اپنی مخلوق کی نفسیات کو جانتی ہو؟ وہی توخالق ہے جو اپنے بندوں کی کمزوری اور بے بسی سے کامل واقف ہے۔وہ جانتا ہے کہ کتنا اورکس طرح کا بوجھ میرے بندے اُٹھا سکتے ہیں۔ اسی لئے خالق و مالک نے اسلام پر چلنے والوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ ’’وہ لوگوں کو حکمت اورعمدہ نصیحت کے ذریعے دعوت دیں۔ شدت پسندی سے گریز کریں،اُس طریقہ سے نہ بُلانا، جس سے وہ دشواری اور پیچیدگی محسوس کریںاور یہ دین انسانیت پر بوجھ بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُمت کو یہی تعلیم دی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور اُن کو تسلیاں دو اور نفرت سے دور رہو۔اِس تصّور ِ اعتدال کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس وافر مقدار میں ذرائع موجود ہیں۔قرآن ہمارے پاس ہے، اُس کو ہم سامنے رکھ کر تصورِ اعتدال سے آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ایک اور جگہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے۔’’اپنی چال میں اعتدال رکھ اور اپنی آواز پست کر ‘‘۔یعنی ہماری چال ڈھال،ہماری وضع قطع اور ہمارےبودو باش میں اعتدال اور درمیانی صورت حال کا ہونا لازمی ہے۔اسلام شدت پسندی کو بالکل ناپسند اور اس سےگریز کرتا ہے۔ مسلمان اگر اس طریقے سے عبادات کرتا ہے کہ وہ باقی ضروری افعال سے بے رغبت ہوجاتا ہے تو وہ اِس عمل کے باعث اپنے اوپر وبال کھڑا کرتا ہے ،جو اللہ کو نا پسند ہے۔ یہاں پر حقیقت سے پردہ اُٹھانا بے جا نہ ہوگا کہ اُمتِ مسلمہ میں عبادات میں شدت پسندی کا رُجحان کسی حد تک غالب ہواہے۔ جس کے نتیجہ میںباقی لوگ آسان دین کو مشکل اور بوجھ سمجھ کر اس سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے اس طرح کے پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ ایک تو ہمارا ذمہ دار طبقہ جو عوام الناس کے سامنے اِس دین ِفطرت کو اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ سامنے والا تشویش میں پڑ کر دین سے دوری اختیار کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے اندر کشمکش اور تجسس کی حِس ختم ہو جاتی ہے۔وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اگر مجھ سےمیں فلاں کام ہوا، تو میرے ساتھ ایسا ویسا ہوگا ،اور وہ دین بیزار بن جاتا ہے۔اس آسان دین ِ مبین کی اصل روح لوگوں کے کے دِلوں میں نہیں ڈالی جاتیاور پھرجب یہی لوگ دین سے بے رغبت ہوجاتے ہیں تو اُن کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں منفی سوچ گر کر لیتی ہے۔ ہم لوگ داعیانہ اوصاف سے بہت کمزور ہیں۔ ہم قرآن کے اس داعیانہ اصول کو یا تو جانتے ہی نہیں ، یا پھر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ اصول جو قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ’’ لوگوں کو بلاؤ اپنے رب کی طرف ،حکمت اورعمدہ نصیحت سے ‘‘۔ ہم دعوت دیتے وقت فروعی مسائل کو اُجاگر کرتے ہیں۔ مثلاً اسلام میں اگر آنا ہے تو پھر آپ کو کُرتا پاجامہ ہی پہننا پڑے گا۔ اسلام میں اگر داخل ہونا ہے تو اسکول وردی کو بھی کُرتہ پاجامہ ہی سلوانا ہوگا۔ فلاں مقدار تک داڈھی رکھنی پڑےگی، پھر ٹوپی پہننی ہی پہننی ہوگی۔ اس طرح سے بہت سارے ایسے زائل اور فروعی مسائل ہیں جنکو ہم لوگوں کے سامنے اُجاگر کرکے دین سے متنفر کرتے ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کو ہم اسلام میں اول درجے پر رکھتے ہیں۔ ایسابالکل بھی نہیں ہے کہ میں کُرتا پاجامہ،داڈھی اورٹوپی کے خلاف ہوں۔ پھر یہ بھی ایک شدت پسندی ہے۔ الحمدللہ میں نے داڈھی بھی رکھی ہے،کرتہ پاجامہ بھی پہن لیتا ہوں اور ٹوپی کا اہتمام بھی کرتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بغیر مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے اور یہ فروعی معاملات بعد میں بھی حل کیے جاسکتے ہیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کوئی خاص لباس اور کوئی خاص طرزِ زندگی انسان کے لیے مقرر نہیں کرتا ہے،بلکہ فطری طور پر جس طرزِ زندگی اور وضع لباس نے نشوونما پایا ہے،اس کو جُوں کاتُوں تسلیم کرلیتا ہے۔ البتہ خاص اصول مقرر کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر قوم اپنے قومی لباس اور طرزِ معاشرت میں اُن اصولوں کے مطابق اصلاح کرلے۔اُن میں سب سے پہلے ستر کے حدود ہیں۔ اخلاق کے نقطۂ نظر سے اسلام اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ تمام مرد لازمی طور پر اپنے جسم کے ان حصوں کو چھپائیں،جو ناف اور گھٹنے کے درمیان ہیں۔ اور تمام عورتیں،چہرے اور ہاتھ پاؤں کے سوا اپنے پورے جسم کو مستور رکھیں۔ دوسری ضروری اصلاح جو اسلام نے تجویز کی ہے، وہ یہ ہے کہ مرد ریشم کا لباس اور سونے چاندی کے زیورات پہننا چھوڑدیں اور مرد اور عورتیں سب ایسے لباس پہننے سے احتراز کریں ،جن سے فخر و غرور،بے جا نمائش اور عیش پسندی کا اظہار ہو۔ وہ تکبر کے لباس، جنھیں پہن کر ایک انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں اپنی بڑھائی جتاتا ہے،اسلام کی نظر میں لعنت کے قابل ہیں۔تیسری چیز جس کا مطالبہ اسلام کرتا ہے وہ یہ کہ شرک اوربُت پرستی کو وہ مخصوص علامتیں جنہیں کسی مذہبی فرقے نے اپنے لئے خاص کر رکھا ہو،آپ کے لباس سے خارج ہونی چاہیے۔ لباس کے حوالے سےیہ چند باتیں یہاں قلمبند کرنا اہم تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِپاک ہمارے سامنے ہے۔اُن کی مبارک زندگی کے روشن پہلو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔آپ ؐ ہر معاملے میں میانہ روی کے حامل تھے۔ آپؐ فرماتے ہیں، بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کے ساتھ کیے جائیں۔اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کا قرب حاصل کرو‘‘۔
ہمیں خالق نے اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اس عبادت پر ملنے والے اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا ہے لیکن عبادات میں فرائض کے علاوہ نفلی عبادات کی ایسی کثرت جو ہمیں فرائض سے غافل کردے اور جو ہمیں باقی ذمہ داریوں سے غافل کردیں، گناہ ہیں۔ مثلاً نماز کی ادائیگی ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔اب اگر کوئی مرد مسجد جاکر نماز مکمل کرکے پھر مسجد میں دیر تک نوافل یا باقی تسبیح پڑھنے لگتا ہے اور معاش جیسی اہم ذمہ داری سے غافل ہوا، تو ربّ کے کٹہرے میں وہ بندہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ کیونکہ وہ جو معاش والی ذمہ داری تھی، وہ اہم فرائض میں سے ایک تھا۔ اس کے اوپر اللہ نے دو قسم کی ذمہ داریاں سونپ دیں ہیں جو یکساں طور پر انجام دینا لازمی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد کی ہیں، اُن کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تبھی ہم ان ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ دو طرح کی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیںاور ان ہی دو ذمہ داریوں میں بندگی کے کامل تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
حقوق اللہ: یہ وہ حقوق کہلاتے ہیں جو ہم اللہ کی ذات کے لیے انجام دیتے ہیں۔ حقیقت میں تو یہ کام ہم اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں کیونکہ اس سے ہماری ہی ذات کا بھلا ہوتا ہے لیکن چونکہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ہمیں اس نے اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے تو فوائد ہمارے ہی تو ہیں۔ مثلاًنماز کو قائم کرنا،رمضان کے روزے رکھنا،اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا،اگر صاحب استطاعت ہے تو بیت اللہ کی زیارت کرنا، دین کی سربلندی اور اس کے قیام کے لیے تن من دھن سےجدوجہد کرنااورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنا ،یہ سب حقوق اللہ کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں، اسی طرح ایک اور دوسری اہم ذمہ داری ہے، جو حقوق العباد کہلاتا ہے۔
حقوق العباد: ایسے حقوق جو خالق کائنات کی مخلوق کی خاطر ہم انجام دیتے ہیں۔جس میں ہمیں انسانیت کی بقا اور اس کی فلاح و بہبودی کے لئے کام کرنے کا حکم ہے۔اگر کوئی انسان ضرورت مند ہے تو اسکی ضرورتوں کو پورا کرنا ہم پر لازم ہے۔ کوئی بے بس اور مفلس ہے تو اس کی بے بسی اور مفلسی دور کرنے کی کوشش کرنا ہم پر لازم ہے۔ کوئی ضعیف اور ناتواں ہے تو اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہم پر لازم ہے۔ مظلوموں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنا اور ان کے حقوق کی تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں ڈھونڈنا اور مشکلات سے چھٹکارا دلانا ہم داعیوں کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ اب مسئلہ ہم لوگوں نے خود کھڑا کر رکھا ہے، وہ یہ کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ دو طرح کے گروہ ہیں، ایک گروہ حقوق اللہ کو اس طریقے سے انجام دیتا ہے کہ وہ حقوق العباد کو نظر انداز کرجاتا ہے۔ وہ حقوق العباد سے تغافل برتتا ہے۔دوسرا گروہ، حقوق العباد کو اس انداز سے انجام دیتا ہے کہ وہ حقوق اللہ سے غافل ہوجاتا ہے۔ دونوں گروہ ایک (Extremism) کے شکار ہوکر بندگیٔ خالق میں اعتدال کی روش سے ہٹ کر شدت پسندی اور صعوبتوں والا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، جو اسلام کے برخلاف اور نقصان رساں افعال ہیں ،جن سے ہمیں اجتناب کرنا لازمی ہے۔
اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے ان دونوں ذمہ داریوں کو یکساں طور پر انجام کی ۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ یہ بات مضبوطی کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں بیٹھنی چاہیے کہ ہم پر خالق کی مخلوق کے بھی حقوق ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے حقوق،پڑوسیوں کے حقوق، قرابت داروں کے حقوق، دوستوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق وغیرہ۔ ان میں سے ایک بھی اگر جان بوجھ کر نظر انداز ہوتا ہے تو ہم گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگر اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کمی بیشی رہ جائے تو معافی اور توبہ سے گناہ ٹل جائے گا۔ لیکن حقوق العباد کے سلسلے میں کوتاہی ایک نازک مسئلہ ہے۔ اس میں تب تک معافی ممکن نہیں ہے جب تک کہ بندے معاف نہ کریں۔ گویا کہ یہاں پھر بندوں کے ساتھ سامنا رہ جاتا ہے، جن کو منانے میں وقت لگتا ہے۔اس لئے ہر فعل اور ہر عبادت میں توازن تب ہی ممکن ہے جب ہم اعتدال کے دامن کو ہر وقت تھامے رکھیں۔
)رابطہ۔7051529443)
[email protected]