اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان کو اپنی اطاعت کاملہ کا حکم فرمایا ہے تاکہ ابن آدم اپنے مقصد تخلیق پورا کر سکے ، ورنہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادت کا محتاج ہی نہیں ۔ یہی چیز سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اطاعت ،عبادت ،اتباع، اخلاص و یکسوئی کے الفاظ قدسیہ سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔االلہ کی اطاعت کے بغیر انسان خود کو کتنا بھی بلند سمجھے،وہ حقیقت ِزندگی اور لذت ِ حیات سے ناآشنا ہی رہے گا۔اس بارے میں ہمارے سامنے متصادم مثالیں ہیں کہ ابراہیم خلیل اللہ ؑ اور موسیٰ کلیم اللہ ؑ نے اللہ کی بندگی کاحق بتمام وکمال پوار کیا تو خالق کائنات نے ا نہیں بر گزیدہ کیا اور جب ا براہیمی و موسوی دعوتِ اطاعت کو نمرودوفرعون نے عبث سمجھ کر اپنے شیطانی نفس کی اطاعت وپیروی کی تویہ خدا کے یہ باغی دنیامیں ذلیل ورُسوا ہو کر رہے اورآخرت میں خسارہ ہی خسارہ پائیں گے ۔ نام انہی کا باقی رہے گا جنہوں نے خدا تعالیٰ کی اطاعت وعبادت کی توفیق پائی ۔
قرآن کہتا ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو عبادت ِالہٰیہ سے اشرف المخلوقات کامقام ومرتبہ عطا کیا ہے ۔ اگرچہ ہر مخلوق کو اپنی تخلیق کا حق ادا کرنے کا مکلف بنایاگیا ہے لیکن حضرت انسان کو اس کے ساتھ ہی اللہ کے حضورجوابدہ بھی بنایا گیا ہے ۔ اسے اپنے ایک ایک عمل اورارادے کا حساب کتاب پیش کر ناہوگا ۔ جب دنیا میںاس کی عبادت و اطاعت خالص اللہ کے لئے ہو تب ہی اس کے اندر ا خلاص مندی ،صدق وصفا اورمحبت وبے ریائی کے جلوتیں پیدا ہوں گی ، وہ للہٰیت سے سرشارہو گا ، وہ ہرکس وناکس کو تکلیف دینے سے باز رہے گا ، اس کے دل کی دھڑکنوں پر خشیت ِخداوندی اور محبت ِ خداوندی کا اتناپر تو ہو گاکہ کرہ ٔ ارض پر مجسمۂ رحمت ثابت ہوگا ۔
آنحضورﷺ کو سب سے بڑا امتیازی انعام معراج مقدس کی صورت میں بخشا گیا ۔ قرآن میںجہاں خدا تعالیٰ نے اس سرفرازی کا ذکرفرمایا ، وہیںمسجدالحرام، مسجد اقصیٰ ،سدرۃ المنتہیٰ اور قاب قوسین ہر جگہ حضرت سیدا لعابدین جناب سرور عالم ﷺ کو بندۂ خدا کے القابِ جلیلہ سے نوازا ۔ واضح رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بشمول سید الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ بندوں کو اطاعت وعبادتِ خداوندی کا مفاہیم ومقاصد سمجھانے کیلئے مبعوث فر مائے گئے ۔
حضرت شاہ ہمدان امیر کبیرمیر سد علی ا لہمدانیؒ اپنی معرکتہ آلاراء کتاب’’ ذخیرۃ الملوک‘‘ کے چوتھے باب میں فرماتے ہیں کہ حضرت عون بن عبداللہ کا ایک بد مزاج غلام تھا جو آپ کی بہت بے ادبی کیاکرتا تھا، جب حضرت عون کو غصہ آتا تو فرماتے :یہ غلام اپنے آقا کی طرح ہے ۔جب اس کا آقا اپنے مالک خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے، یہ بھی اپنے آقا کی نافرمانی کرتا ہے۔ لوگوں نے عرض کی اس بد مزاج غلام کو کیوں نہیں بیچ دیتے ؟فرمایا یہ مجھے اپنی اصلاح اور غرور توڑنے کے کام آتا ہے، اس کی بدمزاجی سے میں اپنے نفس کو کچلتا ہوں اوراپنی طرف سے اپنی عبادات واطاعت میں خامیوں کو ڈھونڈتا رہتا ہوں ۔
اس وقت بساطِ ارض پر چونکہ اطاعت ِخداوندی تقریباً ناپید ہے ،اس لئے جابجا قتل و غارت ،فسادات ،بدامنی، جنگ آزمائیاں ،عوام کی بے بسی ،حکام کی پتھر دلی،رہنمائوں کی لاچاری ،میاں بیوی میں رسہ کشی ٗ اہل وعیال میں انتشار جیسی جان لیوا بیماریاں عام ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ عبادت واطاعت کے رشتے میں کمزوری درآئی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عبادت اور اطاعت ِ خداوندی کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے افراد اور قوموں کو عروج بخشا ، عزت دی۔ بندے میں اگر کمالِ استطاعت ِمعرفت نہ بھی ہو ، پھر بھی خدا تعالیٰ کی دادودہش نہیں رُکتی ،وہ بندے کی ادنیٰ سطح کی عبودیت پر بھی اسے کچھ نہ کچھ فیوضات سے بہرور کرتا ہے ۔ سلطان محمود غزنوی ؒ کو اپنے درباریوں نے اپنے سیاہ فام غلام ایاز کو اپنے قریب بیٹھنے کی اجازت پر انکساری کی شکل میں اعتراض کیا گیا تو محمود غزنوی ؒ نے فرمایا :اس کو میں نے اطاعت کی وجہ سے اپنے قریب کیا ۔ درباریوں نے عرض کی کہ ہم بھی تو اطاعت گزار ہیں ۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے خزانے سے لعل بدخشاں منگوایا اور ہر وزیر کو توڑنے کا حکم دیا ، سب نے اس کی قیمت بے بہا کی وجہ سے توڑنے سے انکار کردیا۔ بادشاہ نے آخر پر اپنے خادم ایاز کو توڑنے کا حکم دیا ،حکم سنتے ہی اُس نے فوراً اس قیمتی لعل کے دو ٹکڑے کر دئے ۔ بادشاہ نے فرمایا :ایاز تم نے اس کی قیمت نہیں جانی؟ عرض کی میرے لئے اس کی قیمت سے آپ کا حکم بجالانا محبوب زیادہ ہے ۔ بادشاہ نے فرمایا :اے درباریو! اسی اطاعت کی وجہ سے میں نے شاہی خادم ایاز کو قریب ترکیا ہے ۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی بھی یہی کیفیت ہو کہ بغیر قیل وقال بجالائی جائے تو مزاہے ۔
حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ’’ میں نے حضور اقدس ﷺ سے سنت کے بارے میں سوال کیا تو آنحضورﷺ نے مجھے سنت کے سترہ(۱۷) اصولوں سے باخبر کیا ۔اگرچہ وہ براہ راست اعمال کے لحاظ سے سنت نظر نہیں آتے ہیںلیکن اطاعت اورعبادت کو انجام دینے میں بمنزلہ روح اور مقصد ہے ۔‘‘اس حدیث مقدس کو حضرت قاضی عیاض مالکی اندلسی ؒ نے اپنی معرکۃ الارا کتاب ’’شفاء ‘‘ میں درج کیا ہے ۔ فرمایا:معرفت میری اصل پونجی ہے ،عقل میرے دین کی اصل ہے ،محبت میری بنیادہے ،شوق میری سواری ہے، ذکر الٰہی میرا انیس ہے ،اعتماد میرا خزانہ ہے ۔حُزن میرا رفیق ہے ،علم میرا ہتھیار ہے ،صبر میرا لباس ہے،رضا میری غنیمت ہے ،عجز میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے،یقین میری غذا ہے ،صدق میرا ساتھی ہے ،اطاعت میرا بچائو ہے،جہاد میری خصلت ہے ،نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔یہ سب مقدس اصول بندگی ٔ خدا کو اتنا پختہ کرتے ہیں کہ عابد ومطیع حق الیقین کا در جہ پاکر ہر مصیبت پر صبر،ہر کام میں شوق وجذبہ ،حل طلب مسائل و معاملات کو عقل کے ترازو میں تول کر علم ومعرفت کے ہتھیار سے فیصلہ کرتا ہے ،ہر ذمہ داری کو ذکر الٰہی سمجھ کر پُر اعتماد ہوکر منتہی مقام تک پہنچانے کاقصد کرتا ہے،ہر کام کے اندر رضائے الٰہی میںاپنے خصائل ذمیمہ سے جہاد کرکے انہیں زیر کرتا ہے ،بلند ہوتے ہوئے بھی عجز و عاجزی میں فرق نہیں آنے دیتا ہے ،دنیا کے عیش وآرام میں غرق نہ ہوتے ہوئے اصل مقصد ِ وجودسے کبھی پیٹھ نہیںپھیرتا ہے۔ ان ہی صفاتِ روحانیہ کو لے کر خدا کے دربار میں ہمہ وقت سربسجود ہوکر اپنی بندگی واطاعت کا اظہار کرتا رہتا ہے اوراپنے حزن وغم کو قابو کرکے مستعد وفعال نظر آتا ہے ۔
حضرت امیر کبیر میر سید علی الہمدانی(ؒ جنہوں نے دین حق کو کشمیر میں متعارف کرکے اپنی دونوں دنیاؤں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے) اسی اندازِ اطاعت وعبادت کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ نے خانقاہیں تعمیر کرکے ان میں اللہ کے اطاعت شعارا ورعبادت گزار بندوں کومسند ِارشاد پر فائز کرکے اہل کشمیر کی تربیت دینی کا اہتمام کیا ۔ ان خداترس مربیوں اور تربیت گاہوں سے عام لوگ شکوک وشبہات سے پاک وصاف ہوکر یقین وایمان کا نور پاتے کہ دلوں میں خاصانِ خدا بننے کا شوق پالتے اور ہمہ وقت اپنے آپ کو سدھارنے میں محنت شاقہ اٹھاتے لیکن افسوس صدافسوس !ہم ان برکات و فیوضاتِ نبوی ؐ سے منہ پھیرکر صرف بحث وتکرار اور مسلکی تنازعات کا شور شرابہ کر رہے ہیں اور اطاعت وعبادت خداوندی کا حلیہ بگاڑ کر رکھنے کے بُرے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ حتیٰ کہ اب حال یہ ہے کہ ہم نمازوں سے بھی بلاتکلف تساہل برت لیتے ہیں ۔اس سے اور چیزوں کے علاوہ ہم بہ حیثیت مجموعی عبادات واحکاماتِ خداوندی کی لذتوں سے ناآشنا ہورہے ہیں ۔ اگر ہمیںدنیا کا حسنہ اور آخرت کی کامرانی چاہیے تو اللہ سے اپنے رشتے کو کسی حال میں ٹوٹنے نہ دیں۔ یہی ایک واحد چوکھٹ ہے جہاں سے مرادوں کی جھولیاں بھری جاسکتی ہیں ، مسائل کا حل آسکتا ہے اور مشکلات کا ازلہ ہوسکتا ہے ۔ حضرت اشرف علی تھانوی صاحب ؒ کو اپنے کسی مرید باصفا نے خط لکھا کہ میں نے بوجہ خیالات آنے سے نماز چھوڑ دی ہے ۔جواب میں حضرت نے فرمایا:’’دیکھو! دل مانند چوراہا ہے، اس چوراہے سے ہر مخلوق کا گزر ہوتا ہے، اسی طرح دل سے بھی ہر طرح کے خیالات کا گزر ہوتا ہے لیکن اس گزر گاہ سے بادشاہ کا بھی گزر ہوتا ہے۔اسی طرح یقینا کبھی نماز میں ایسا لمحہ بھی نصیب ہوجاتا ہے کہ بادشاہ ِحقیقی کا خیال آکر تمام ضمنی خیالات کا عفو ودرگزر ہواور یہ ایک لمحہ ساری کوتاہی کی تلافی کا باعث بن جاتا ہے، لہٰذا نماز پڑھتے رہو ۔یہ عبادت واطاعت کاسرچشمہ ہے ۔حضور ﷺ نے نماز کی بہت تاکید فرمائی ہے ،یہی امت کے حق میں معراج اور فواحش ومنکرات دور کرنے والا عمل ہے۔ مسلمانوں کو یہی عمل مساوات ،طہارت و تزکیہ اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر سے جوڑ سکتا ہے ،اخلاقی قدروں کا احیاء ہوسکتا ہے ، سماجی وسیاسی مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور سماج میں گناہ وجرائم کا سدباب ہونا ممکن ہے ۔