’اشتار ویلی‘خوبصورت قدرتی مناظر کا ایک اور شہکار|| نالہ دودھ گنگا اور شالی گنگا کا منبع دوسری بڑی پہاڑی جھیل’ موکرسر‘ اور ’تروسر‘ اسی وادی کا حصہ

 اعجاز میر

سرینگر // آج ہم آپ کو وادی کے اس علاقے کی سیر کرانے جارہے ہیں، جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں اور بہت کم لوگوں کو اس علاقے سے متعلق کوئی جانکاری ہے یا بہت کم لوگوں کو یہاں جانے کا کبھی موقعہ ملا ہے۔اس نئی وادی کی خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ وادی کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے جہاں صاف شفاف دودھ جیسی ندیاں، پانی کے جھرنے،گھنے جنگلات اور وسیع میدانوں کے لا منتہائی سلسلہ کے علاوہ گھاٹیاں اور پہاڑی سلسلے کے دلفریب نظارے ہیں۔دوردور تک آبادی نہیں، ماحولیات کی آلودگی نہیں اور قدرتی خوبصورتی کی شاہکار یہ وادی واقعی طور پر جنت سے کم نہیں ہے۔ضلع بڈگام میں ایک انتہائی خوبصورت وادی بھی ہے جس کا نام’’ اشتار ویلی‘‘ ہے۔’اشتار وادی‘ سطح سمندر سے تقریباً 4000 ہزار سے زائدفٹ کی بلندی پر واقع ہے جہاں وادی کا دوسراسب سے بڑا پہاڑی چشمہ بھی موجود ہے جسے موکرسر یا’ مگروسر‘ بھی کہا جاتا ہے۔موکر سر(مگروسر) سے مشہور نالے دودھ گنگا اور شالی گنگا نکلتے ہیں اوردونوں نالے دومیل کے مقام پر ایک دوسرے کیساتھ ملتے ہیں۔خان صاحب تحصیل کے دود ھ پتھری علاقے سے قریب 25کلومیٹر دور یہ عام طور پر ایک مشکل راستہ سمجھا جاتا ہے۔

 

مگرو سر ایک جھیل ہے جو ہمالیہ کے شاندار پیر پنچال سلسلے کے درمیان واقع ہے۔ یہ پگڈنڈی پیر پنچال کے وسیع و عریض راستوں سے گزرتی ہے اور اب تک کے کچھ انتہائی دلکش نظارے پیش کرتی ہے۔ سب سے زیادہ متنوع ماحولیاتی نظام کے ساتھ سبز رنگ کے ماحول اس مقام کے گردونواح کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہاں چند چرواہوں کو اپنے مویشی چراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ طاقتور ہمالیہ کے پس منظر کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والے گھاس کے میدان اور ڈھلوانوں کا وسیع سلسلہ ہے۔ یہ ایک شاندار ٹریک ہے اور اس خطے میں دیکھنے کے لیے ضروری مقامات میں سے ایک ہے۔مگروسرہمالیائی پیر پنچال سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔اسکے سامنے ہر موکھ پہاڑی سلسلے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور بائیں جانب کولہائی گلیشیروں کا ۔دودھ گنگا نالہ کا ممبع’ مگروسر‘ بنیادی طور پر تاتاکوٹی گلیشیر کے دامن میں ہے اور اسکے اوپر ’سن سیٹ‘ پہاڑ ہے، جہاں سورج غروب ہونے کے سب سے خوبصورت نظارے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سورج ’سن سیٹ‘ پہاڑ کے اوپر پہنچ کر غائب ہوجاتا ہے، اس قدر اس پہاڑ کی اونچائی ہے۔ وادی اشتار کا سفر تقریباً 25کلومیٹر طویل ہے۔ ٹریک مشکل ہے لیکن اتنا نہیں کہ سفر نہ کیا جاسکے۔وادی اشتار کا ٹریک ایک بڑے ٹریک کا حصہ ہے جس میں دیگر مقامات بھی شامل ہیں۔اشتار ویلی تک پہنچنے کیلئے دودھ پتھری سے ’ڈِس کھل‘ میدان تک 5کلو میٹر کی مسافت ہے۔اس سفر کے دوران صرف دیودار کے درخت پائے جاتے ہیں۔ وسیع میدان ہیں اور ساتھ ساتھ شالی گنگا کا نالہ بہتا ہے جسے دو بار پار کرنا پڑتا ہے۔اسکے بعد قریب 8کلو میٹرمزید چل کر’ چھثرھ کنہ ناڑ‘ آتا ہے۔ یہاں سے ’ وادی اشتار‘ شروع ہوجاتی ہے۔5کلو میٹر تک ہر طرف جنگلی پھول، گھاس کے میدان،دیودار کے گھنے جنگلات اور شالی گنگا کا نالہ بہتا ہے۔ ’اشتار ویلی‘ کے قریب 3سر( چشمے) ہیں۔جنہیں ان پٹ فسٹ، ان پٹ سکنڈ اور ان پٹ تھرڈ کہا جاتا ہے اور مقامی لوگ اس جگہ کو ’ تروسر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔یہاں ایک ہی جگہ پر تین چشمے ہیں اسی لئے اس جگہ کو ’ تروسر‘ کہا جاتا ہے۔یہاں سے آگے چل کرتقریباً 4کلو میٹر کی مسافت پر ’ مگروسر‘ آتا ہے جہاں سے نالہ دودھ گنگا اور شالی گنگانکلتے ہیں۔مگروسر کو مقامی لوگ ’ موکر سر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔یہ وادی کے پہاڑی چشموں میں کوثر ناگ کے بعددوسرا بڑا ہے اور سب سے زیاہ اونچائی پر واقع ہے۔اشتار وادی سے 7کلو میٹر اور 5گھنٹے کی مسافت طے کر کے گروانسرکا ٹریک ہے۔گروانسر سے دوریم کی جگہ پہنچنے کیلئے10 کلومیٹر کا ٹریک ہے جسے طے کرنے کیلئے تقریبا ً7 گھنٹے لگتے ہیں۔دوریم سے گدتار تک 10 کلومیٹر کا ٹریک ہے جس میں تقریباً 8گھنٹے لگتے ہیں۔گدتارسے توس میدان تک جانے کیلئے11 کلومیٹر کا ایک ٹریک ہے جس میں تقریباً 5 گھنٹے لگتے ہیں۔