ریاض ملک
سرینگر//جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی نے بدھ کے روز انتہائی ہنگامہ آرائی ،شور شرابہ اور نعرے بازی کے بیچ ایک قرارداد منظور کی جس میں خصوصی حیثیت کی بحالی ، آئینی ضمانتوں کے علاوہ ان دفعات کو بحال کرنے کیلئے آئینی طریقۂ کار پر کام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔بدھ کو اسمبلی اجلاس کے تیسرے دن کی کارروائی کے آغاز میں گزشتہ روز تعزیتی ریفرنس میں غلطی سے رہ گئے کولگام کے دو دفعہ ممبر اسمبلی رہ چکے محمد یعقوب بٹ کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی کرکے اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد اگرچہ معمول کے بزنس کے تحت لیفٹیننٹ گورنر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پیش ہونی تھی اور اُس پربحث بھی ہونی تھی تاہم سپیکر نے اچانک سپلیمنٹری بزنس کی فہرست اٹھاکر نائب وزیراعلیٰ سریندر کمار چودھری کوجموںوکشمیر کے خصوصی درجہ کی بحالی سے متعلق قرار داد ایوان میں پیش کرنے کی دعوت دی جس پرنائب وزیراعلیٰ نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس میں لکھاگیاتھا’’ یہ اسمبلی جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن اور آئینی ضمانتوںکی اہمیت کا اعادہ کرتی ہے جو جموںوکشمیر کے لوگوں کی شناخت ،تمدن اور حقوق کا تحفظ کرتی تھی اور اس پوزیشن کی یکطرفہ تنسیخ پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔مزید یہ ایوان حکومت ہند پر زور دیتا ہے کہ وہ خصوصی پوزیشن ،آئینی ضمانتوں کی بحالی کیلئے اوران شقوںکی بحالی کیلئے آئینی طریقہ کار طے کرنے کیلئے جموںوکشمیر کی عوام کے منتخب نمائندوں سے بات چیت شروع کرے‘‘۔قرارداد میں مزید کہاگیا کہ یہ اسمبلی زور دیتی ہے کہ بحالی کا کوئی بھی عمل قومی یکجہتی اور جموںوکشمیر کے عوام کی جائز خواہشات کا تحفظ کرنا چاہئے۔ابھی نائب وزیراعلیٰ یہ قرارداد پڑھ ہی رہے تھے کہ بی جے پی کے سبھی ممبرا ن اپنی نشستوں سے کھڑ ے ہوگئے اور انہوںنے اس کے خلاف ہنگامہ شروع کیا تاہم ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کے بیچ ہی وزیرتعلیم سکینہ ایتو نے اس قرارداد کی تائید کی اور سپیکر نے اس پر بحث کرنا چاہا تاہم ایوان میں اس قدر شور و غل تھا کہ کچھ سنائی نہیںدے رہا تھا۔قائد حزب اختلافسنیل شرما نے حکومتی اقدام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب پر بحث ہو رہی تھی تو قرارداد کیسے پیش کی گئی۔
سنیل شرما نے مزید کہا کہ اس قانون کو ملک میں پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے بھی پارلیمنٹ کے فیصلہ کی توثیق کی ہے تو اسمبلی کے پاس ایسی قرارداد پاس کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔سنیل شرما کے تبصروں نے حکمران اتحاد کے ممبرا ن کو مشتعل کردیا اور ایوان میں شور شرابے کے مناظر دیکھے گئے جب زیادہ تر این سی اور بی جے پی کے ممبران اپنے پیروں پر کھڑے تھے۔بی جے پی ارکان نے قرارداد کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اس کے ٹکڑے چاہِ ایوان میں پھینک دیئے۔اس ہنگامے کے درمیان ممبر لنگیٹ شیخ خورشید نے چاہِ ایوان کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن اسمبلی مارشلوں نے انہیں روک دیا۔نیشنل کانفرنس کے ارکان نے نعرے لگائے کہ قرارداد منظور کی جائے۔اس دوران کانگریس کے چیف وہپ نظام الدین بٹ نے بھی قرارداد پر بحث کرنے پر زور دیا ۔نظام الدین بٹ نے کہا کہ بی جے پی ارکان نے ایوان کی بے عزتی کی ہے۔ انہوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔نظام الدین بٹ نے کہا کہ ہر رکن کو اس پر بولنے کا حق ہےتاہم بی جے پی ممبران مسلسل برسر احتجاج رہے اور جب سپیکر کے لاکھ اصرار کے باوجود وہ قرارداد پر بحث کیلئے تیار نہ ہوئے تو ہنگامہ آرائی کے بیچ ہی سپیکر نے قرارداد کو ایوان میں ووٹ کیلئے ڈال دیا اور قرارداد صوتی ووٹ سے اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی جس کی حمایت میں پی ڈی پی کے تین ممبران ،سجاد غنی لون ،شیخ خورشدید،شبیر کلے نے بھی ووٹ دیا ۔قرارداد منظور ہوتے ہی بی جے پی ارکان نے چاہِ ایوان میں دھاوا بول دیااور دوسری جانب حزب اقتدار ممبران بھی نعرے بازی کرنے لگے اور یوں عملی طور ایوان مچھلی بازار میں تبدیل ہوگیاتھا۔جب کافی وقت تک ایوان کا نظم و نسق بحال نہ ہوسکا تو سپیکر نے ٹھیک 10بجکر20منٹ پرا یوان کی کارروائی پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کردی۔15منٹ کی بجائے 45منٹ بعد 11بجکر 5منٹ پر جب ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو صورتحال کچھ مختلف نہ تھی اور بی جے پی ممبران مسلسل احتجاج کررہے تھے ۔اس دوران قائد حزب اختلاف سنیل کمار شرما نے سپیکر پر ایک بار پھر جانبداری برتنے اور ایوان کے قواعد کے خلاف جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قراردادغیر آئینی ہے کیونکہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ خصوصی پوزیشن کو ختم کرچکے ہیںجس کے بعد اسمبلی کو ایسی قرارداد لانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔انہوںنے کہا کہ سپیکر تانا شاہی سے کام لے رہے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور وہ نعرے بازی کرتے ہوئے اپنے دیگر ساتھیوںکے ساتھ چاہِ ایوان میں داخل ہوگئے جس کے بعد حزب اقتدار اور احزب اختلاف دونوںجانب سے اس قدر شدید نعرے بازی ہورہی تھی کہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔اس دوران سپیکر نے احتجاجی ممبران کو خاموش کرنے کی مسلسل کوششیں کیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے اور احتجاج میں شدت آتی گئی جس کے چلتے سپیکر نے ایک بار پھر ایوان کی کارروائی ایک گھنٹے کیلئے ملتوی کردی۔12بجکر22منٹ پر جب ایوان کی کارروائی پھر شروع ہوئی تو بی جے پی کا احتجاج پہلے کی طرح ہی جاری تھابلکہ اس بار اس میں مزید شدت آگئی اور قائد حزب اختلاف سنیل کماراور بی جے پی کے دیگر کئی ممبران سیکریٹری اور اسمبلی رپورٹنگ عملہ کی میزوںپر چڑھ گئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔وہ مسلسل گو بیک گوبیک سپیکر گو بیک کے نعرے لگا رہے تھے ۔بی جے پی ممبران مسلسل اس قرارداد کو غیر قانونی اس کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے تھے جس کے جواب میں حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے ممبران بھی نعرے بازی کررہے تھے اور ایوان میں بالکل کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔اس دوران ایک دفعہ سپیکر نے احتجاجی ممبران کو چاہِ ایوان سے نکل کر اپنی نشستوںپر بیٹھنے کی بار بار تاکید کی تاہم وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے او ر چاہ ِایوان میں احتجاج اور نعرے بازی جاری رکھتے ہوئے سپیکر پر نشانہ سادھتے رہے ۔قائد حزب اختلاف سنیل شرما نے کہاکہ انکے پاس اطلاعات ہیں کہ آپ (اسپیکر) نے کل وزراء کی میٹنگ بلائی اور خود قرارداد کا مسودہ تیار کیا جس کے جواب میں سپیکر نے اُ ن سے کہا کہ اُنہیں سپیکر پر بھروسہ نہیں ہے تو وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں ۔شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کے بیچ ہی سپیکر نے نیشنل کانفرنس کے ممبر اسمبلی جاوید حسن بیگ کو لیفٹیننٹ گورنر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پیش کرنے کیلئے کہا ۔اگر چہ جاوید حسن بیگ نے شکریہ کی تحریک پیش کی اور نیشنل کانفرنس کے حامی آزادامیدوار مظفر اقبال خان نے اس کی تائید کی تاہم شور شرابہ کے بیچ خود سپیکر کو بھی پتہ نہیں چل سکاکہ تحریک پیش ہوچکی ہے تاہم انہیں مطلع کیاگیا کہ تحریک پیش ہوچکی ہے جس کے بعد انہوںنے بی جے پی ممبران سے لیفٹیننٹ گورنر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر بحث میں حصہ لینے پر زور دیا لیکن انہوں نے ایک نہیںمانی اور یوں ہنگامہ آرائی جاری رہی جس کو دیکھتے ہوئے سپیکر نے بالآخر ایوان کی کارروائی کل صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔