عظمیٰ نیوز سروس
جموں//لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اتوار کو دعوی کیا کہ پڑوسی ملک کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ایک حکمت عملی بنائی گئی ہے اور سیکورٹی فورسز کو دوبارہ تعینات کیا جا رہا ہے۔ایک خبر رساں ایجنسی کیساتھ انٹرویو میں، انہوں نے زور دے کر کہا کہ “اگلے تین ماہ میں صورتحال میں بڑی تبدیلی” آئے گی۔جموں خطہ میںملی ٹینسی کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنہا نے کہا، “یہ واقعات افسوسناک ہیں، ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں اور جموں و کشمیر اور ملک کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان واقعات پر یقینی طور پر قابو پالیا جائے گا، پڑوسی ملک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو گا۔انہوں نے بتایاکہ پاکستان دہشت گردی کی جنم بھومی ہے، یہ وہیں سے پھوٹتی ہے، بھارت اور جموں و کشمیر انتظامیہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کر رہی ہے، کئی دوسرے ممالک بھی ان کوششوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ایل جی نے صورتحال پر قابو پانے میں فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا، آپ آنے والے تین مہینوں میں بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔سنہا نے کہا کہ پڑوسی ملک یہاں کے حالات کو خراب کرنے کے لیے غیر ملکی ملی ٹینٹوں کوبھیج رہا ہے۔ گزشتہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ نے حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ فورسز کی دوبارہ تعیناتی شروع ہو گئی ہے فوج، سی آر پی ایف اور پولیس اہلکاروں کی تعیناتی بڑھ گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور دہشت گردی کے ان واقعات سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ “مرکزی وزیر داخلہ نے حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں خطے میں بہتر نتائج دیکھنے کو ملیں گے‘‘۔جموں و کشمیر میں پاکستان کی طرف سے مشکلات کو ہوا دینے کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے پوچھے جانے پر، انہوں نے کہا، “ہم پاکستان کی اندرونی صورتحال سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں، ملک اپنے ہی لوگوںکو خوراک تک فراہم نہیں کر سکتا، اس کی وجہ سے جموں و کشمیر ان کے لیے پسندیدہ موضوع بن گیا ہے‘‘۔ایل جی نے کہاکہ ملک یہ قبول کرنے میں ناکام ہے کہ بھارت نے اسے جنگوں میں شکست دی، اس لیے وہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، بین الاقوامی محاذ پر بھارت کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے دوران بھی، کچھ ممالک، جن کے نقطہ نظر ہم سے مختلف تھے، نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ تسلیم کیا،” ۔ان دعوئوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستانی فوج کے سپیشل سروس گروپ کے ذریعہ تربیت یافتہ افراد کو جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کو انجام دینے کے لیے گھسایا جا رہا ہے، سنہا نے قبول کیا کہ انتہائی تربیت یافتہ غیر ملکی عسکریت پسند خطے میں گھس آئے ہیں۔انہوں نے کہا”یہ ایک حساس مسئلہ ہے، ان مسائل پر پریس میں بات کرنا مناسب نہیں،یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کو عوامی سطح پر ظاہر کیا جائے، تاہم، جو لوگ اس طرف دراندازی کر چکے ہیں وہ واقعی اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں، پڑوسی ملک چاہے جتنی بھی کوشش کرے، وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ دراندازی کرنے والوں کو ختم کیا جائے گا، سیکورٹی گرڈ کو مضبوط کیا جا رہا ہے، اس طرح صورتحال میں مکمل تبدیلی لائی جا رہی ہے، سیکورٹی فورسز زمین پر اپنی حکمت عملی کو ٹپوگرافی کو مدنظر رکھتے ہوئے نافذ کر رہی ہیں۔جموں اور کشمیر میں عسکریت پسندی کے عروج کے دوران سیکورٹی کی تعیناتیوں کو یاد کرتے ہوئے، ایل جی نے کہا، “وہاں آپریشنل اور اقلیتی پکٹس ہوا کرتے تھے ان کی طاقت زیادہ تھی، لیکن جب حالات بہتر ہوئے تو طاقت کم ہو گئی۔یہ کہتے ہوئے کہ جموں خطہ پچھلے 15 سے 16 سالوں سے پرامن تھا، سنہا نے کہا، “ہمارا پڑوسی پرامن نہیں ہے۔”انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات(یہاں) پرامن طریقے سے ہوتے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں ووٹ دیتے ہیں تو یہ قدرتی طور پر(پاکستان کے لیے) تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اگر آپ سیکورٹی اہلکاروں یا ہلاک ہونے والے شہریوں کے اعداد و شمار کا موازنہ کریں، تو اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ایل جی نے کہاکہ کسی بھی نامی تنظیم کے اعلیٰ کمانڈر اب زندہ نہیں ہیں، میں اسے ایک بڑی کامیابی سمجھتا ہوں کہ مقامی بھرتی (دہشت گرد گروپوں کی طرف سے)تقریباً بند ہو گئی ہے۔ اب، پڑوسی یہاں دہشت گردوں کو گھس کر حالات کو خراب کرنا چاہتا ہے،” ۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں تینجموں خطہ میں دہشت گردی کے چار واقعات ہوئے ہیں۔ سنہا نے مزید کہا، یہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی کافی مذمت نہیں کی جا سکتی۔
انتخابات
لیفٹیننٹ گورنر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جموں اور کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے بارے میں حکومت کا موقف آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے “بغیر کوئی تبدیلی” رہا ہے اور امید ظاہر کی کہ الیکشن کمیشن جلد ہی پولنگ کی تاریخوں کا اعلان کر دے گا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انتظامیہ یونین کے زیر انتظام علاقوں میں انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے، اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہ وہ “پرامن اور منصفانہ” ہوں گے۔منوج سنہا نے کہاکہ پولنگ کی تاریخوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے، اور جس سمت میں چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں، مجھے امید ہے کہ یہ جلد ہی معزز سپریم کورٹ کی خواہشات کے مطابق اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔انہوں نے کہا”میں آپ کو واپس لے جانا چاہوں گا جب آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا گیا تھا، اس دن، وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ترتیب (کارروائی)پہلے حد بندی ہوگی، اس کے بعد اسمبلی انتخابات ہوں گے، اور پھر مناسب وقت پر ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ اس دن سے آج تک اس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے کہا”اسمبلی کا حجم بڑھایا گیا، اور اس کے بعد، حد بندی کمیشن نے نئی حدود طے کرنے پر کام کیا۔ یہ ایک وقت طلب عمل تھا، حد بندی کمیشن نے حد بندی کا عمل مکمل کیا۔”سنہا نے برقرار رکھا کہ شاہ اور مودی دونوں نے مسلسل کہا ہے کہ اسمبلی انتخابات جلد از جلد کرائے جائیں گے۔ایل جی سنہا نے نشاندہی کی کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں لوک سبھا انتخابات کامیاب رہے، مجموعی طور پر 58 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ انہوں نے کہا کہ صرف وادی میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔”یہ اہم ہے، کیونکہ یہ 35-36 سالوں میں پہلی بار ہے کہ وادی میں نوجوانوں، خواتین اور بزرگوں سمیت اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کا جمہوریت پر اعتماد ہے۔انہوں نے مزید کہا، انتظامیہ اسمبلی انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ مکمل طور پر پرامن اور منصفانہ ہوں گے۔ میں ووٹروں سے درخواست کرتا ہوں، جنہیں جمہوریت میں مکمل آزادی حاصل ہے، وہ قومی مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ ایسے لوگوں کو سیاست میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔مرکز کی طرف سے انہیں بااختیار بنانے کے حالیہ نوٹیفکیشن کے بارے میں ہونے والی تنقیدپر سنہا نے کہا کہ یہ کوئی نئی پیشرفت نہیں ہے۔ “کوئی ترمیم نہیں ہے۔ 31 اکتوبر کے ریاستی تنظیم نو ایکٹ میں اسے شامل کیا گیا تھا، اور انتخابات سے پہلے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، ۔