نوٹ اس مضمون میں راقم نے اپنے جوخیالات ظاہر کئے ہیں وہ میرے ہیں، ضروری نہیں کہ اس اخبار کے قارئین بھی ان سے متفق ہوں۔ میرے خیالات میرے اپنے خیالات ہیں اور میں اپنی ذات کے بغیر کسی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ میری باتیں میری باتیں ہیں کوئی ضروری نہیں کہ حتمی ہوں۔ میری باتیں کوئی عالمی صداقت بھی نہیں، اس لئے ان سے اختلاف ہوسکتا ہے۔دراصل اس مضمون کو لکھنے کی نوبت اس لئے آئی کہ کچھ شاعر دوستوں کو میرے گزشتہ مضمون میں درج میری ان باتوں پر اعتراض تھا جس میں میں نے کہا تھا کہ یہ شاعروں کا کام ہے کہ رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں، وہ خوشبو کے کان بھی کھنچتے ہیں، یہ ان کی ککڑی ہوتی ہے جو ٹماٹروں سے چوزے نکالتی ہے، ان کا اونٹ رکشے پر بیٹھتا ہے، وہ پتھروں سے لہو بھی چاٹتے ہیں، جگنوؤں کو پنجروں میں پالتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس بات کا اعتراف بھی یہاں ضروری ہے کہ اس مضمون کو مرتب کر نے میں مجھے کچھ جرائد اور کتابوں سے بھی مدد لینا پڑی جن میں کچھ کے نام یاد تو ہیں مگر کچھ کی صرف عبارتیں یاد ہیں، ان کو کہاں دیکھا یا پڑھا ہے وہ صحیح طور یاد نہیں۔ (نذ یر جہانگیر)
رسول اﷲﷺ کے عہد مبارک میں اور اس سے پہلے بھی عرب دنیا میں شعر وشاعری عام تھی اور شاذونادر ہی ایسے لوگ تھے جو اس کا ذوق نہ رکھتے ہوں، لیکن خود آنحضرتﷺ کو اس سے بالکل مناسبت نہ تھی بلکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپؐ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا۔ بعض صحابہؓ نے شعر وشاعری کے بارے میں رسول اﷲﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ مطلقاً قابل مذمت ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اگر شعر کا مضمون اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور برا ہے تو وہ برا ہے۔ بعض موقعوں پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بعض اشعار تو بڑے حکیمانہ ہوتے ہیں۔(معارف الحدیث۔ص۱۹۵،ج۶)۔موضوع کے اعتبار سے یہاں علّامہ اقبالؔ ؒ کے اُس مضمون کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا جو ۸؍اگست ۱۹۱۷ میں ’’رسول اﷲﷺ فن شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا تھا اور کریم آباد کے ایک جریدے ’’ستارۂ صبح‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں اقبالؔ اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:
’’حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے وقتاً فوقتاً اپنے عہد کی عربی شاعری کے متعلق جن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا وہ مسلمانوں کے لئے ہمیشہ ادبی نصب العین کے دلیل راہ رہیں گے۔ مثلاً حضورﷺ نے امرء القیس کے متعلق، جو بعثت سے چالیس سال پہلے فوت ہوا، ارشاد فرمایا: ’’وہ شاعروں میں سب سے بڑا شاعر ہے لیکن انہیں جہنم کی طرف لے جانے والا لیڈر بھی ہے‘‘۔ اس ارشاد پاک سے ظاہر ہے کہ حضورﷺ اعلیٰ درجے کی شاعری کے مرتبہ شناس بھی تھے اور امراء القیس کے موضوع کو ناپسند کرنے کے باوجود اس کے شاعرانہ کمال کا اعتراف فرماتے تھے لیکن اس شاعرکی حسین وجمیل شاعری سننے والوں کو حقائقِ حیات سے غافل کرکے ان میں بے خودی کی کیفیت پیدا کرتی ہے، اس لئے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ایک دفعہ قبیلہ بنوعیس کے مشہور شاعر عنترہؔ کا یہ شعر حضورﷺکو سنایا گیا:
ولقد ابیت الطّوی والظلہ
حتی انا بہہ کریم الماکل
یعنی میں نے بہت سی راتیں محنت شاقہ میں بسر کی ہیں تاکہ میں اَکل حلال کے قابل ہوسکوں۔ حضورﷺاس شعر کو سن کر بے حد محظوظ ہوئے اور صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کاشوق ملاقات پیدا نہیں کیا لیکن اس شعر کے کہنے والے کو دیکھنے کے لئے میرا دل چاہتا ہے‘‘۔ چونکہ ایک صحیح قابل تعریف جذبہ فنی حسن خوبی کے ساتھ نظم کیا گیا تھا، لہٰذا حضورﷺنے ایک بت پرست عرب سے ملنے کا شوق ظاہر کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضورﷺکے نزدیک آرٹ، حیات انسانی کے تابع ہے۔ جو آرٹ انسان کو کاہلی، جمود اور عیاشی سے نفرت دلاکر محنت و مشقت اور اکل حلال کی طرف متوجہ کرتا ہے، وہی آرٹ قابل قدر ہے۔’ ’فن برائے فن‘ ‘کا نظریہ لغویات میں سے ہے۔
اقبالؔ کے ایک شیدائی جناب مجید ملکؔ علامہؔ کے ساتھ اپنی ایک طویل ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے اقبالؔ سے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک آرٹ بجائے خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا؟ قائم بالذّات نہیں؟ جواب میں انہوں نے فرمایا: نہیں۔ آگے فرمایا کہ اردو شاعری ہندوستان کے دورِ انحطاط کی پیداوار ہے ،اس لئے کمزور، غیر فطری اور حد درجہ کی مصنوعی ہے۔ آرٹ اقوامِ عالم کی زندگی کا عکس ہے۔ کسی قوم کے آرٹ کو دیکھ کر اس قوم کی نفسیاتی کیفیتوں کا صحیح نقشہ کھنچا جاسکتا ہے لیکن آرٹ زندگی کا مظہر ہی نہیں زندگی کا آلۂ کار بھی ہے اور سچا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کو بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے وقف کردے۔ ملکؔ صاحب لکھتے ہیں، میں نے عرض کیا: ’’فرحت‘‘ محض ’’فرحت‘ ‘بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی شعر کسی کو ہنسادے یا آمادۂ گریہ کردے کیونکہ بسا اوقات گریہ میں بھی فرحت پنہاں ہوتی ہے تو یقیناً وہ شعر کامیاب ہے۔ علامہؔ نے جواب میں فرمایا: بے شک، لیکن اردو شعراء بھی اپنی قوم کے لئے فرحت مہیا کرتے ہیں اور پرانے عربی شعراء بھی کیا کرتے تھے، مگر کتنا تفاوت ہے۔ عربی شاعری میں اور اردو شاعری میں وہی فرق ہے جو ایک سرفروش و جنگجو قوم میں اور عشرت زدہ قوم میں ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ میرے نزدیک اس زمانہ کی عربی شاعری صحیح قسم کی شاعری تھی۔ عرب کی زندگی کے عیوب عربی شاعری میں عیاں ہیں لیکن ان عیوب کی نوعیت اردو شاعری کے عیوب سے مختلف ہے۔ میرے نزدیک حقیقی آرٹسٹ وہ ہے جو اپنی قوم کا نبض شناص ہو اور آرٹ کو قومی امراض کے دفیعہ کا ذریعہ بنائے۔ شاعر امراء القیس کی طرح’’ اشعرا لشعراء‘‘ کے باوجود’’ قائد ہم الی النار‘‘ ہوسکتا ہے اور شاعر ہی اپنے حسن کلام کی وجہ سے اس رتبے تک پہنچ سکتا ہے جس رتبے پر لبیدؔ پہنچا کہ خود سرور کونینﷺ کو اس سے ملنے کا شوق تھا۔علاوہ ازیں جسے تم ’’کامیاب‘‘ شعر کہتے ہو وہ اور چیز ہے اور معیار پر پورا اُترنے والا شعر اور چیز ہے۔ وہ شاعری جو آرٹ کے حقیقی معیار پر پورا اُترتی ہےعلم وآگہی کا جزو ہے۔ وہ شاعری جو اس معیار پر پورا اترے یا نہ اترے لیکن فنی معیار پر پوری اترتی ہے’ ’کامیاب‘‘ شاعری ہے۔
ابوالحسن علوی صاحب کا شاعروں اور شاعری کے حوالے سے ’’صدر اسلام میں شاعری‘‘کے عنوان سے ایک خوبصورت مضمون ہے، قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے بعض اقتباسات پیش کررہا ہوں۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ دور جاہلیت کی شاعری اور صدر اسلام کی شاعری کا اگر ہم تقابلی مطالعہ کریں تو واضح طور محسوس ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین ؓکے دور کا شعر اس پائے کا نہیں ہے کہ جس پائے کا جاہلی شعر ہے بلکہ نقادوں کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا جاہلی شعر ان کے اسلامی شعر سے بہتر ہے کہ اس کے مضامین میں وسعت اور گہرائی بہت ہے۔ ابن سلام، ابن خلدون اور احمد الزیات رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ صدر اسلام میں شعری فن کمزور پڑ گیا تھا البتہ اس کے کمزور پڑنے کے اسباب وہ مختلف بیان کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس کا ایک سبب یہ تھا کہ اسلام نے شعر جاہلی کے بنیادی مضامین کو حرام قرار دے کر اس پر شعر کہنے کے رستے بند کر دیے تھے جیسا کہ تشببیب، ہجو اور مبالغہ وغیرہ ہیں۔ اور دوسری بڑی وجہ قرآن مجید کی فصاحت اور بلاغت تھی کہ جس سے مرعوب ہو کر یا اس سے متاثر ہو کر بڑے بڑے شعراء نے شعر کہنے چھوڑ دیے۔ واضح رہے کہ اخطل، فرزدق اور جریر وغیرہ بنو امیہ کے دور کی بیماریاں ہیں۔
اسلام نے اگر شاعری کی سرپرستی کی ہوتی تو خلفائے راشدین کے دور میں شاعری اور شعراء کی حالت دور جاہلیت سے لازما بہتر ہوتی بلکہ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ بہترین دور یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مسجد نبویؐ میں شعر پڑھتے دیکھ کر ڈانٹتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پڑھ لیتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کس کو ذوق نبوت حاصل ہو گا؟
لبید بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہ جو اصحاب معلقات میں سے ہیں، عربی زبان کے چوٹی کا شاعر، اسلام لانے کے بعد 55 سال زندہ رہے لیکن اس دوران صرف ایک شعر کہا۔ امیر کوفہ نے لبید رضی اللہ عنہ سے شعر کہنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت شروع کر دی اور جب ختم کر لی تو کہا کہ میرے پروردگار نے اسلام لانے پر مجھے میرے شعر کے بدلے میں یہ نعمت عطا کی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ان کا وظیفہ بڑھا دیا۔ میرؔوغالب ؔکی شاعری کی وکالت کرنے والوں سے صاف بات کہتا ہوں کہ جن پر قرآن مجید کا اثر ہوا، ان کی یا تو زبانیں بند ہو گئیں یا پھر شعر کے مضامین بدل گئے، تشببیب اور ہجو کی جگہ زہد اور ورع نے لے لی۔
صدر اسلام میں شعر کے کمزور پڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ذوق نبوت شعر کا نہیں بلکہ جوامع الکلم کا تھا کہ جس سے خطابت کے فن نے ترقی کی اور اسلام کی دعوت اور پھیلاؤ میں زیادہ مفید خطابت تھی نہ کہ شعر۔ دوسرے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مدح میں مبالغہ کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم دیا کہ جس سے امراء کی مبالغہ آمیز مدح کی بنیاد پر شاعروں کے بڑے بڑے وظیفوں کے جاری ہونے کے رستے بند ہو گئے اور ان کا کاروبار مانند پڑ گیا۔ علاوہ ازیں اور بھی اسباب ہیں لیکن ان کے بیان کا یہاں موقع نہیں ہے۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ شاعری کہ جسے شعراء کے ہاں شاعری کہا جاتا ہے یعنی تشبیب، غزل، ہجو، مدح، وصف، فخر، مرثیہ، حماسہ وغیرہ کا اکثر ان لغویات کے قبیل سے ہے کہ جن سے اعراض کرنا مومنین صالحین اور عباد الرحمن کی صفات میں سے اہم صفت ہے۔ باقی اگر آپ شاعر ہیں یا میر وغالب جیسا شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں تو میرا مقصود آپ کی تحقیر وتذلیل ہر گز نہیں اور میں آپ کو اپنے آپ سے دینی اور اخلاقی طور بہتر ہی سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ایک لغو کا ارتکاب کر رہے ہیں تو میری زندگی میں اس سے زیادہ لغویات ہوں گی لیکن مجھے دین کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہر چیز کے بارے خیر اور شر کے پہلو کا حکم لگانا ہے اور پھر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ہے"۔
شاعروں پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے مجھے کہا کہ ایک شاعر صاحب نے ایک غزل سنائی جس میں اس نے اپنے محبوب کے حسن کی یوں تعریف کی اور کہا کہ میرے محبوب کا بدن ایسا کومل ہے کہ جب وہ پانی پیتی ہے تو پانی کا معدے میں اُترنا گلے سے نظر آتا ہے اور میرا محبوب اتنا نازک ہے کہ گلاب کے پتیوں سے بھی اس کے جسم کو خراش لگتی ہے۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ میں نے اس شاعر صاحب سے کہا کہ بھائی ایسا محبوب کس کام کا؟ اگر اس سے شادی ہوئی تو وہ ہاتھ لگانے سے ہی مرجائے گی!۔
محبوب کے حوالے سے شاعروں کا ایسا غلو عام ہے۔ قرآن کریم میں جو یہ ارشاد ہوتا ہے :
اور شاعروں کی بات پر چلیں وہی جو بے راہ ہے [۲۶۔۲۲۴]
اس کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں:
’’کافر لوگ کبھی کاہن بتاتے کبھی شاعر، سو فرمایا کہ شاعر کی باتیں محض تخیلات ہوتی ،ہیں تحقیق سے اُس کو لگاؤ نہیں ہوتا، اس لئے اُس کی باتوں سے بہ جُز گرمئی محفل یا وقتی جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت نہیں ہوتی حالانکہ اس پیغمبرؐ کی صحبت میں قرآن سن سن کر ہزاروں آدمی نیکی اور پرہیزگاری پر آتے ہیں۔ شاعروں نے جو مضمون پکڑ لیا اُسی کو بڑھاتے گئے۔ کسی کی تعریف کی تو آسمان پر چڑھادیا، مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اُس میں جمع کردئے۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثابت کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غرض جھوٹ، مبالغہ، تخیل کے جس جنگل میں نکل گئے، پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسی لئے شعر کی نسبت مشہور ہے: اَکذب اُو اَحَسنِ اُو۔‘
لبیدؔ عرب کا بڑا مشہور شاعر تھا۔ حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
ولو الشعر بالعلماء یذری
لکنت الیوم اشعر من لبید
(اگرشاعری علماء کی شان سے پست درجے کی چیز نہ ہوتی تو میں آج لبیدؔ سے بڑھ کر شاعر ہوتا)۔
لبیدکو پھر اﷲ تعالیٰ نے قبولِ اسلام کی توفیق عطا فرمائی۔ روایات میں ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد شعر وشاعری کا مشغلہ بالکل چھوٹ گیا اور کہا کرتے تھے کہ ’’یکفینی القرآن‘‘ (بس اب قرآن میرے لئے کافی ہے)۔ [معارف الحدیث۔ ص ۱۹۶۔ ج۶]۔
اپنے محبوب کی نزاکتوں میں شاعر مبالغے کے کس درجے تک جاسکتے ہیں اس کی مثال ذیل کے اشعار سے ملتی ہے۔
بشیر بدر ؔکا شعر ہے:۔
ترا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے
حیدرعلی آتشؔ کا شعر ہے:۔
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے
قزلباشؔ کا شعر ہے:۔
ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
ایک اور شاعر اسلم بھٹی کا شعر ہے:۔
اللہ رے اس گل کی کلائی کی نزاکت
بل کھاگئی جب بوجھ پڑا رنگ حنا کا
ایک اور شاعر صاحب کا شعر دیکھئے:۔
خواب میں آنکھیں جو تلوؤں سے ملیں
بولے اُف اُف پاوں میرا چھل گیا
انشاؔءاللہ خاں نے تو کمال ہی کردیا، کہتے ہیں:۔
نزاکت اس گل ِرعنا کی دیکھو انشاؔ
نسیم صبح جو چھوجائے رنگ ہو میلا
حد تو یہ ہے کہ اس معاملے میں احمد فرازؔ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، فرماتے ہیں:۔
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
آپ خود اندازہ لگائے کہ اگر ایسا محبوب ملا بھی تو کیا اس سے شادی ہوسکتی ہے؟ وہ تو واقعی ہاتھ لگانے سے ہی مرجائے گی!
آج جہاں نظر جاتی ہے وہاں کوئی نہ کوئی شاعر نظر آرہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ادب کو فروغ مل رہا ہے۔ یہ تو ایسا ہوا کہ چیونٹی کے پر نکل آئیں تو وہ سمجھے کہ میں مثل سلیمانؑ ہوگئی اور اب اڑنے لگی ہوں حالانکہ یہ اس کے خاتمے کی علامت ہوتی ہے۔ بہادر شاہ کے دور میں بڑھتے بڑھتے ہندوستان میں شاعروں کی کثرت انتہا کو پہنچی تھی ،چنانچہ انگریزوں کی صرف تین ہزار فوجیوں نے اپنے ملک سے بہت دور ہوکر بھی بائیس کروڑ آبادی والےاتنے بڑے ہندوستان پر آسانی سے قبضہ کرلیا۔ بجائے اس کے کہ اس المیہ سے کچھ سبق حاصل کیا جاتا مسلمانوں نے یہ مصیبت اپنے گلے میں ڈال دی۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے!افلاطون نے جو تصوراتی سٹیٹ بنائی تھی اُس میں اُس نے شاعروں کو ملک بدر کردیا تھا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ملفوظات میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک بزرگ سے سنا کہ جسے آخرت کا بنانا ہو اسے درویشوں کے سپرد کردو، جسے دنیا کا بنانا ہو اسے طبیبوں کے سپرد کر دو اور جسے نہ آخرت کا بنانا ہو اور نہ دنیا کا اسے شاعروں کے سپرد کردو۔ تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضرت ایک صورت رہ گئی کہ اگر کسی کو دونوں دنیا اور آخرت کابنانا ہو!۔ تو وہ بزرگ بولے ایسی کوئی صورت نہیں ہے۔