ہارون رشید
اسلام اپنے بھائی چارے کے اُس عالمگیر تصور کے ساتھ آیا ہے،جو ہر قسم کے امتیاز کو مسترد کرتا ہے۔ ہمیں روزانہ تشدد یا جرائم کی خبروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یا کوئی نیوز چینل دیکھتے ہیں۔ مسلسل خوف اور تناؤ کے اس عمل سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اس دنیا میں ایساکیا ہوا ہے، جس کے بارے میں ہمارا یقین ہے کہ بہت ترقی یافتہ ہے، جبکہ انسان ظالم سے ظالم ترہوتا جارہاہے۔ کوئی بھی حساس اور ہمدرد انسان اس موجودہ دنیا کی ترقی پر سنجیدگی سے سوال کر سکتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ وہ خودبرتر ہیں اور دوسرے کمتر ہیں جبکہ حقیقت میں یہ ایک تباہ کن دُنیا ہے، جس کا اس وقت ہمیں سامنا ہے۔نسل پرستی یہ عقیدہ ہے کہ ایک مخصوص نسل دوسری نسل سے برتر یا کمتر ہے کہ کسی شخص کی سماجی اور اخلاقی خصوصیات اس کی پیدائشی حیاتیاتی خصوصیات سے پہلے سے متعین ہوتی ہیں۔نسل پرستی یہ عقیدہ ہے کہ مختلف نسلوں کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے الگ رہنا چاہئے۔ ان نسل پرستانہ رویوں کی اسلام مذمت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ (قرآن، 49:13)اس آیت کو پڑھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ خدا پوری انسانیت سے مخاطب ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہم ایک بھائی چارہ ہیں، جو انسانیت کے وسیع تر بھائی چارے کا حصہ ہے۔نسل، رنگ، زبان یا دولت کی بنیاد پر کوئی بھی دوسرے پر برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ میں بلا لحاظ رنگ و نسل انسانیت کا احترام کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’تمام بنی نوع انسان آدم سے ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں ہے، نیز نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے ،سوائے تقویٰ اور نیک عمل کے۔ ایک شخص ایک دفعہ مسجد نبوی میں آیا اور اس نے لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا ،جن میں سلمان فارسی، صہیب یونانی اور بلال افریقی تھے۔ اس شخص نے کہا: ’’اگر (مدینی) اوس اور خزرج کے قبیلے محمد کی حمایت کرتے ہیں تو وہ ان کے لوگ ہیں۔ لیکن یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپؐ ناراض ہو گئے،آپؐ مسجد میں گئے اور لوگوں کو نماز کے لیے بلایا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! جان لو کہ ربّ ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، تمہارا ایمان ایک ہے‘‘۔بحیثیت مسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ نسل کی بنیاد پر امتیازی اخراج ہمارے عقیدے کی روح کے لیے اجنبی ہے اور اس کے نتیجے میں ہمیں اپنے بچوں کی پرورش اِسی عقیدے کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ہمیں ان میں یہ بات پیدا کرنی چاہیے کہ نسل پرستی کے لیے کوئی بہانہ یا وجوہات نہیں ہیں۔نسل پرستی لوگوں کو رنگ اور ذات کی بنیاد پر ‘’ہم ‘اور ’ان‘ میں تقسیم کرتی ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ بُرا سلوک کرنا قابل قبول ہے ۔خدا نے ہمیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ،اس کا مطلب ہے کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم اسی عمل کے ذریعے تخلیق کئے گئے ہیں نہ کہ اُس طریقے سے، جس میں کچھ کو دوسروں سے بہتر طریقہ کار کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہو۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا نے انسانوں کو مختلف گروہوں اور لوگوں میں بنایا ہے، یہ اختلاف غلط نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے ایک نشانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا فرق ہے۔ یقیناً اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ (قرآن، 30:22)ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کی اِس یا کسی دوسری آیت میں نسل کے برابر ایک لفظ بھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ تاہم اسلام ان امتیازات کا مقصد تفریق اور ایک دوسرے کو جاننے تک محدود رکھتا ہے۔ اس کا مقصد ایک دوسرے کو مارنے کا ذریعہ نہیں ہے، میرے گروپ کا رویہ آپ کے گروپ سے بہتر ہے یا جھوٹا فخر جیسا کہ قبائلیت، قوم پرستی، استعمار اور نسل پرستی کا معاملہ ہے۔آج ہمیں جن بے شمار مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے کچھ قدرتی آفات ہیں، جب کہ دیگر ہماری اپنی بنائی ہوئی ہیں، جو غلط فہمی سے پیدا ہوتی ہیں، نظریات کے تصادم سے پیدا ہوتی ہیں، جہاں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، انسانیت کی نظروں سے محروم رہتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اختلافات انسانوں کے لیے عمل کے ذریعے خوشی حاصل کرنے، ترقی حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ ہمیں اس بنیادی مقصد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور ہمیں کسی بھی وقت اسباب کو اوپر نہیں رکھنا چاہئے۔ مادے اور نظریے پر انسانیت کی بالادستی کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے۔ذہن میں رکھنے کے لئے دو چیزیں اہم ہیں،ایک خود کی جانچ اور دوسری خود کی اصلاح۔ ہمیں دوسروں کے بارے میں اپنے رویے کو مسلسل جانچنا چاہیے، خود کو بغور جانچنا چاہیے اور جب ہمیں معلوم ہو کہ ہم غلط ہیں تو ہمیں فوراً خود کو دُرست کرنا چاہیے۔وہ شخص جو تقویٰ میں بلند ہے، باشعور ہے اور برائیوں سے دور رہتا ہے اور نیکی کرتا ہے وہ بہتر ہے، خواہ وہ کسی بھی قوم، ملک یا ذات کا حصہ ہو۔ انفرادی تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دوسرے سے بہتر اور عظیم بناتی ہے۔ہمیں عقلمند انسان ہونے کے ناطے اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ اس کرہ ارض پر ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مصائب کا سامنا ہے۔ اگر ہم زندگی میں نسل پرستوں کی خودغرضانہ روش اپنائیں اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دوسروں کو گالی دینے کی مسلسل کوشش کریں تو ہمیں عارضی فائدے تو مل سکتے ہیں لیکن طویل مدت میں ہم ذاتی خوشی حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے اور عالمی امن کو نقصان پہنچے گا۔
( | طالب علم یونیورسٹی آف کشمیر)
[email protected]