حافظ افتخاراحمدقادری
معاشرے میں امن وسکون کا تصور اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس میں مساوات، عدل و مانصاف کا غلبہ نہ ہو۔ سوسائٹی کی خوبی و خرابی، صلح وفساد، اخوت ومحبت کا مدار اسی عدل وانصاف پر منحصر ہے۔ انصاف کا ترازو، رنگ ونسل، ذات پات، امیر وغریب، حاکم ورعایا اور اقلیت واکثریت کے بھید بھاؤ سے متاثر نہ ہو۔ آج کے دور میں جمہوریت کے باوجود امن و شانتی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اکثریت اپنی مرضی و منشا کے اعتبار سے جو چاہیں گل کھلاتی ہے۔ لیکن مذہبِ اِسلام نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک دائمی قانون بنا دیا ہے، جسے کسی اقلیت مخالف بل اور قانون کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی فریضے کی ادائیگی اور عبادات میں مساوات ممکن نہیں، اس لیے مذہبِ اِسلام نے یہاں عدل وانصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ معاملات جو مذہبی نہ ہوں، ان تمام حقوق میں مساوات قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر غیر مسلم امن وسکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور مذہبِ اِسلام و مسلمان کے خلاف سرگرم نہ ہوں تو ایسے لوگوں کے ساتھ مروت و انسانیت، حسن سلوک اور بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:’’ الله تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو بیشک انصاف والے الله کو محبوب ہیں۔‘‘
اسلامی حکومت تمام غیر مسلم اقلیتوں اور رعایا کے دین ومذہب، جان ومال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار اور پابند ہے۔ اسی لیے ان کو اسلامی مملکت کا شہری ہونے کی بنیاد پر وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسلامی مملکت اور قانون فطرت میں تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا اور بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ مذہبِ اسلام نے اقلیتوں کو ان کے معاملات میں آزادی دی ہے، وہ اپنی طرزِ زندگی، رہن سہن، کھان پان، شادی بیاہ اور لین دین وغیرہ میں تو آزاد ہیں، ساتھ ہی دین و مذہب اور عقیدے کی آزادی کے ساتھ مذہبی رسومات میں بھی انہیں آزادی ہے۔ اور یہ صرف خوش کن اعلانات نہیں بلکہ مذہبِ اِسلام کا قانون ہے۔ پوری انسانیت کی تاریخ اس بات سے پاک ہے کہ اقلیت کے کسی ایک فرد کو بھی اس کے کھان پان، شادی بیاہ، تجارت یا مذہبی رسومات ادا کرنے پر ان کو ہراساں کیا گیا ہو یا ان کو مار دیا گیا ہو۔ اقلیتوں کو مذہبی رسومات میں کس قدر آزادی ہے اس کا اندازہ ان باتوں سے لگایا جاسکتا ہے جو مذہبِ اِسلام نے انہیں مراعات عطا کی ہیں۔ مثلاً غیر مسلم کو کھانے پینے کی آزادی ہے جو چیز ان کے مذہب میں حرام نہیں اسے وہ کھا پی سکتے ہیں جیسے خنزیر اور شراب اگرچہ مذہبِ اسلام میں ان چیزوں کو خریدنا بیچنا اور کھانا پینا یہ سب ناجائز و حرام ہے، لیکن اگر کوئی غیر مسلم جس کے مذہب میں یہ جائز ہے ،وہ کرے تو اسے اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح مذہبِ اسلام میں جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام اور غیر مسلم ایسی عورتوں سے نکاح کرتا ہے اور اس کا مذہب بھی اس کی اجازت دیتا ہو تو مذہبِ اِسلام اس میں مداخلت نہیں کرتا۔ اسی طرح اسے اختیار ہے کہ اپنے مذہب پر قائم رہ کر اسلامی سلطنت میں رہ سکتا ہے اس پر کوئی زور اور زبردستی نہیں۔ اس سلسلے میں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’کچھ زبردستی نہیں دین میں‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔‘‘ یعنی ایمان لانا سعادتِ ازلی پر موقوف ہے، ایمان وہی لائیں گے جن کو توفیقِ الٰہی حاصل ہو۔ اور اس آیتِ کریمہ میں حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ سب ایمان لے آئیں اور راہِ راست اختیار کریں پھر جو ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں ان کا آپ کو غم ہوتا ہے اس کا آپ کو غم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ازل سے جو شقی ہے وہ ایمان نہ لائے گا۔ (خزائن العرفان)
اقلیتوں کے لیے مذہبی آزادی و رواداری کی اس سے بہتر قانون کی نظیر نہیں مل سکتی۔ چونکہ مذہبِ اسلام دینِ فطرت اور اس الله رب العزت کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جو علام الغیوب ہے، اس لیے اس کے نظام میں ہر قوم کو مذہبی آزادی کا حق ہے، بلکہ مذہبِ اِسلام نے تو مذہبی رہنما اور عبادت گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے، اہل حیرہ سے معاہدے کی تفصیل اس حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے:’’ اس بات پر صلح ہوئی کہ یہود ونصاریٰ کی عبادت گاہیں نہ گرائ جائیں۔ یہ قوانین صرف کتابوں میں اس کی زیب و زینت کی حد تک نہیں تھے بلکہ اس پر باضابطہ عمل کیا گیا۔ اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یورپ، افریقہ اور ایشیا تک جہاں بھی اسلامی سلطنت قائم رہی پوری تاریخ اسلام میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ مسلمانوں نے اقلیتی فرقے کی عبادت گاہ کو منہدم کیا ہو۔‘‘
[email protected]