شخصیات
جاوید ماٹجی
گزشتہ دنوں اتر پردیش کے غازی آباد سے یہ خبر آئی کہ وہاں مقیم ایک ماہراستاد ہردے ناتھ کول فوت ہوگئے۔ اس خبر سے شہر سرینگر کے بہت سارے لوگ سکتے میں آگئے جن میں راقم بھی شامل تھا۔ آنجہانی کول کا تعلق کشمیری پنڈت برادری سے تھا اور موصوف گزشتہ کئی دہایئوں سے وادی سے باہر مقیم تھے۔ آپ ایک استاد تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ استادوں کے استادتھے۔ اور بحیثیتِ استاد انہوں نے انجمنِ نصرۃ اسلام کے تحت چلائے جانے والے مرکزی اسلامیہ ہائی اسکول راجوری کدل میں ساری عمر پہلے میتھ اور انگریزی استاد کے طور اور بعد میں ہیڈ ماسٹر کے طور گزاری تھی۔ جس دوران انہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں طالب علموں کی زندگیوں میں روشنی کے دئے جلائے تھے۔ کول صاحب استاد ہی تھے مگر ایک الگ و منفرد طریقہ اور اسٹائل رکھتے تھے۔ وہ چاہے پڑھنے پڑھانے کا معاملہ ہو یا سماجی زندگی کا کوئی پہلو۔ آپ ہر معاملے میں اپنا الگ اور ممتاز طریقہ کار رکھتے تھے۔ جسے ان کا ہر اسٹوڈنٹ اپنانا چاہتا تھا۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ انتہائی سہل اور آسان لیکن موثر تھا ۔ جس میں ذہانت اور پیشہ واریت کے جوہر شامل تھے۔ آنجہانی کول یوں لگتا تھا کہ خود کوپڑھنے پڑھانے کے لئے وقف کر چکے تھے۔ ان دنوں کول صاحب کے علاوہ اور کئی پنڈت اساتذہ اسلامیہ ہائی اسکول راجوری کدل میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے جن میں کاشی ناتھ جی، دینا ناتھ جی، بسنتی میڈم جیسے نام آج بھی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جسمانی ورزش، ڈرل، ڈسپلن اور بینڈ کا سارا چارج نریندر ناتھ جی کے سپرد تھا جنہیں ہم اس وقت کے بچے کچھ شرارت کی بنا پر اور کچھ ان کے مزاج کی سختی کی وجہ سے نیر بینڈ کہا کرتے تھے۔
آج جب ہم آنجہانی ہردے ناتھ جی کے ساتھ گزارے وقت کو یاد کرتے ہیں تو دل یہ انگڑائی لیتا ہے کہ کاش زندگی کا پہیہ چند لمحوں کے لئے پیچھے کو گھومتا تو ہم ہردے ناتھ جنہیں عام طلبا ہدے ناتھ کے طور پکارتے تھے، کی ایک کلاس لے لیتے۔ بحیثیتِ انسان بھی آنجہانی کول ایک سادہ مگر الگ وضع قطع رکھتے تھے۔ میں نے اسلامیہ اسکول میں اپنی پڑھائی کے دوران انہیں ہمیشہ گِرے کلر کے سوٹ میں ملبوس دیکھا ہے۔ البتہ ان کے کوٹ یا پینٹ میں کبھی کوئی سلوٹ یا ڈھیلا پن نہیں دیکھا ہے۔ یہ سوٹ ہر روز ایسا دکھتا تھا جیسے آج بلکہ ابھی ڈرائی کلین سے آیا ہو۔ کول صاحب اسکول اپنی سائکل پر آتے تھے جو ہمیشہ صاف شفاف بلکہ چمکتا رہتا تھا۔ آپ ہمیشہ اپنی سائکل کی سیٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھتے تھے اور روزانہ اسکول سے روانگی سے پہلے کپڑا نکال کر سائکل کو صاف کرکے گھر کی جانب اپنا سفر شروع کرتے تھے۔ ہردے ناتھ جی انگریزی بھی پڑھاتے تھے لیکن ماہرِ حساب تھے۔ انہوں نے برسوں قبل میرے بڑے بھائی صاحب کو پرائویٹ اکیڈمی میں حساب پڑھایا تھا۔ جب بھی میرے بھائی صاحب کبھی میری پڑھائی کا حساب لیتے تھے تو میتھ میٹکس، جسے ان دنوں حساب کہاجاتا تھا، پڑھاتے پڑھاتے وہ بالکل وہی طرز اختیار کرتے تھے جو ہردے ناتھ جی ہماری کلاس میں استعمال کرتے تھے۔ یہ اس بات کا غماز تھا کہ کول صاحب کی تربیت اتنی سنجیدہ، گہری اور اثر انداز تھی کہ برسوں بلکہ دہایئوں تک اس کا اثر طلبا پر من و عن دکھائی دیتا تھا۔
کول صاحب اپنے زیر تربیت طلبا سے توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی انہی کی طرح ہر معاملے میں منفرد اور برترہوں۔پڑھائی ہی کی طرح ان کی تنقید کا انداز بھی نرالا تھا۔ کسی اسٹوڈنٹ کے بال لمبے دکھتے تو اسے کول صاحب صرف ایک بات سے پانی پانی کرتے۔ کوئی میلے کپڑیوں کے ساتھ اسکول آیا ہوتا تو اس کے لئے کول صاحب تنقید کے چند ہی الفاظ ادا کرتے کہ وہ دوسرے دن صاف کپڑوں کے ساتھ واردِ اسکول ہو جاتا۔ اسکول ٹائم کے بعد ہردے ناتھ جی کسی بچے کو کوئی ہلکی پھلکی آوارہ گردی کرتے دیکھتے تو دو تین دن تک وہ لڑکا ان کی کلاس میں اپنے سے آگے والی لڑکے کی آڑ میں اپنا سر چھپاتا رہتا کہ ماسٹر جی کی نظر اس پر نہ پڑے۔ ایک بارحساب کے کلاس ٹسٹ میں پڑھائی میں انتہائی کمزور ایک لڑکے نے غیر متوقع طور اچھے نمبرات لائے۔ ہردے ناتھ جی سے یہ بات ہضم نہ ہوئی انہیں لگا کہ لڑکے نے ضرور کوئی گڑ بڑ کی ہے۔ اگلے دن انہوںنے کلاس میں اعلان کیاکہ کلاس ٹسٹ کا رزلٹ تیار ہے البتہ ایک پرچہ میرے سے کہیں گم ہوگیا ہے۔ پھر اس مشکوک لڑکے کی طرف رخ کرکے کہا کہ تمہارا پرچہ پتہ نہیںکہاں گم ہوگیا ہے اس لئے تمہیں دوبارہ امتحان دینا پڑے گا۔ ابتدا میں لڑکا بوکھلا ساگیا اور کچھ ادھر ادھر کا بولنے لگا مگر سامنے ہردے ناتھ تھے جن کے سامنے کسی کی نہیں چلتی تھی۔ وہ لڑکا بادلِ نا خواستہ دوبارہ امتحان کے لئے تیار ہوگیا۔ ہردے ناتھ جی نے اسے وہی پرچہ حل کرنے کو دیا جو اس سے پہلے سبھی بچوں کو دیا تھا۔ مگر وہ اس میں بری طرح فیل ہوگیا۔
ہردے ناتھ جی اصولوں، ضوابط اور قواعد کے ذبردست پابند تھے۔اور یکساں طور منہ پھٹ بھی تھے ہم نے کئی بار انہیں پرنسپل مرحوم غلام محمد خادم اور کچھ دیگر سینئروںکے ساتھ کئی معاملوں پر تکرار کی حد تک بحث و مباحثوں میں مشغول دیکھا جس کی وجہ ان کی خود داری تھی۔ البتہ اس سب کے باوجود وہ سماج میں ہر ایک سے اچھے سے گھل مل رہے تھے۔ ہم انہیں بارہا لنچ بریک کے دوران اسکول کے باہر ِ دکان پر بیٹھ کر دکان داروں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے بھی دیکھا کرتے تھے۔ ہردے ناتھ جی کی ایک بھانجی ہمارے ساتھ غلام نبی شوخ صاحب کے ہاں ٹیوشن لیا کرتی تھی ایک بار ان سے ہردے ناتھ جی کے بارے میں بات چلی تو اس نے بتایا کی گھریلو معاملات ، ہمسائیگی اور رشتہ داری میں بھی موصوف اپنے اصول و آداب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔
ماسٹر ہردے ناتھ کول کی موت سے وہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ غم زدہ ہیں جن کا دورانِ تعلیم آنجہانی کے ساتھ کم یا زیادہ رابطہ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیتِ استاد آنجہانی کی تعلیم و تربیت کے نقوش ان کی زندگیوں میں گہرے ثبت ہیں۔ یوں تو ہر انسان کی زندگی میں بہت سارے استاد شامل رہتے ہیں لیکن انسان شاید ہی کسی کا اثر اس حد تک قبول کرلیتا ہے جس طرح سرینگر شہر کے ہزاروں طلاب نے اسلامیہ مڈل اسکول نوشہرہ میں مرحوم و مغفور غلام محمدزرگر اور سنٹرل اسلامیہ اسکول میں آنجہانی ہردے ناتھ کول کا قبول کر لیا ہے۔ دونوں کی بہت گہری چھاپ سماج کے ایک وسیع طبقہ پر ثبت
ہے۔
[email protected]