بعض اوقات مقامی میڈیا میں ایسی خبروں کو کوئی جگہ یا اہمیت حاصل نہیں ہوتی جو ہر اعتبار سے بہت ہی اہم ہوتی ہیں اور دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بھی بن سکتی ہیں ۔ حالانکہ مشرق وسطیٰ کے حالات کشمیر میں ہمیشہ ہی گہری دلچسپی اور توجہ کا باعث رہے ہیں لیکن میڈیا کا فوکس عام طورپر روزمرہ کے واقعات پر ہوتا ہے ۔گزشتہ مہینے ایک ایسا سانحہ بھی ہوا جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور تقدیر دونوں کو تبدیل کرنے کا باعث ہوگا لیکن یہ خبر ایسی توجہ کا باعث نہیں رہی جیسی کہ ہونا چاہئے تھا ۔اسرائیلی پارلیمنٹ جسے کنیسہ کہا جاتا ہے ،نے اسرائیل کو یہودی مملکت قرار دینے کا قانون منظور کرلیا ۔ اس واقع کی دنیا بھر میں شدید مذمت ہوئی اور اسے نسل پرستی کی معراج قرار دیا گیا ۔ اس قانون کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن (قومی مملکت ) قرار دیا گیا جس میں اسرائیل میں آباد عرب اقلیت کو قطعی کوئی حق حاصل نہیں ہوگا ۔ اسرائیل میں یہودی آبادی 65لاکھ ہے اور اٹھارہ لاکھ عرب یہاں آباد ہیں ۔اسرائیلی پارلیمنٹ میں آٹھ گھنٹے کی بحث کے بعد یہ قانون 55کے مقابلہ میں 62ووٹوں سے منظور کیا گیا ۔ اس موقعے پر پارلیمنٹ کے عرب اراکین کی شدید مخالفت کی حمایت ممتاز یہودی اراکین نے بھی کی اور اس قانون کو ملک میں نسلی تفریق کا نظام قرار دیا ۔ اہم بات یہ ہوئی کہ صدر ریوون اور اٹارنی جنرل مینڈل بلٹ نے بھی اس قانون کی بعض دفعات کو نسل پرستانہ قرار دیا تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس قانون کی منظوری کو صیہونیت اوراسرائیل کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ قرار دیا ۔
اسرائیل میں عربوں کی 20 فی صد آبادی ہے اور نئے قانون کے تحت عربی جو اب تک سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی تھی اب اس حیثیت سے محروم ہو جائے گی۔ نئے قانون میں فلسطینیوں کی سر زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو توسیع دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور اب فلسطینیوں کے دیہی علاقوں میں بھی یہودیوں کو آباد کیا جائے گا۔ آئندہ اسرائیل میں ہر معاملہ میں صرف یہودیوں کو ترجیح دی جائے گی۔نئے قانون کی منظوری کے وقت عرب رکن پارلیمان ایمن اودھ نے ایوان میں سیاہ پرچم لہرایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شر سے بھرپور قانون ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد ایمن اودھ نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ ’’ آج میں اپنے بچوں سے اور فلسطین کی عرب بستیوں کے بچوں سے کہوں گا کہ اسرائیل کی مملکت نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہمارا اپنے وطن میں رہنے کاکوئی حق نہیں ہے‘‘۔فلسطینی رہنمائوں نے بھی نئے قانون پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین PLO کے سیکرٹری جنرل صایب اریقاط نے نئے قانون کو نہایت خطرناک نسل پرست قانون قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسطینی بھر پور عزم کے ساتھ اس اقدام کی مزاحمت کریں گے۔ فلسطینوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے یہ قدم در اصل صدر ٹرمپ کی بھر پور شہہ اور حمایت کے بل پر کیا ہے۔
لیکن تاریخ عالم میں اس المناک واقعہ پر بے پناہ وسائل اورطاقت سے مالا مال مسلم دنیا کا کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیںآیا ۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے بھی مذمتی بیان کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ نہ عرب لیگ کا کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی او آئی سی کی کوئی ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی ۔مسلم دنیا نے اسے ایک معمول کے واقعہ کی طرح نظر انداز کردیا جبکہ اس قانون کے بعد عرب مسلمان جو اسرائیل میں صدیوںسے آباد ہیں، دوسرے درجے کے ایسے شہری بن کر رہ گئے ہیں جن کا نہ کوئی اختیار اس ملک میں ہوگا نہ ہی انہیں کوئی سرکاری سہولت دستیاب ہوگی جو یہودی شہریوں کو مل سکے گی ۔ نہ انسانی حقوق کی اس سے بڑی کوئی پامالی ہے اور نہ ہی نسل پرستانہ ذہنیت کی کوئی مثال ۔ خود یہودی اس طرح کی نسل پرستانہ جارحیت کا خوفناک دور دیکھ چکے ہیں ۔ اوڈولف ہٹلر یہودی نسل کا ہی خاتمہ کرنے کے درپے تھا، اب وہ خود ہٹلرکے راستے پر گامزن ہوچکے ہیں حالانکہ ہٹلر کے بدترین انجام کو بھی وہ دیکھ چکے ہیں ۔
تب اور اب میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ جب یہودی نسل پرستی کے اس جنون کے شکار تھے، پوری دنیا ان کی حمایت اور ہٹلر کی مخالفت میں کھڑی ہوئی تھی اور آج کوئی ایک مضبوط آواز بھی اس کے خلاف موجود نہیں ہے ۔دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ بن جانے کے بعد ہی اسرائیل نے عظیم تر اسرائیل کے اس خواب کی تکمیل کی طرف قدم بڑھانے شروع کردئیے ہیںجس کے تانے بانے اس قوم نے گزشتہ صدی میں بن رکھے تھے تو بے جانہ ہوگا ۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے میں عالمی تنہائی کی بے عزتی بھی امریکہ نے ہنستے ہوئے برداشت کی مگر ڈونالڈ ٹرمپ بذات خود یروشلم پہنچے اور وہاں اپنے سفارت خانے کا افتتاح کرڈالا ۔ اسرائیل کے لئے اس سے بڑی حوصلہ افزائی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ اس کے بعد اس نے فلسطینیوں پر عتاب اورعذاب کا ایک نیا دور شروع کردیا جو اب تک جاری و ساری ہے لیکن جہاں اسرائیل اپنے خوفناک عزائم کی عمل آوری کیلئے تمام اخلاقی اورانسانی قدروں کو بری طرح سے روندھتا چلا جارہا ہے اور عالم انسانیت کو اس کھلی جارحیت پر ذرابھی پشیمانی نہیں ہوتی وہیں پر جارحیت کی مار جھیلنے والے عالم انسانیت کی عملی حمایت سے محروم فلسطینیوں کی مزاحمت کا عزم اور زیادہ پختہ ہوتا جارہا ہے ۔ایک طرف نہتے فلسطینی نوجوان ہاتھوں میں پتھر لیکر اسرائیلی بندوقوں کے سامنے مزاحمت کی تاریخ رقم کررہے ہیں تو دوسری طرف ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے فلسطینی اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔
گزشتہ روز یروشلم کی ایک عدالت نے سوشل میڈیا پر شاعری کے ذریعے فلسطینی نوجوانوں کو ’’ دہشت گردی ‘‘ پر اکسانے کے الزام میں فلسطینی عرب شاعرہ 36سالہ دارین طاطورکو پانچ ماہ قید کی سزا سنادی ۔دارین طاطور نے فیس بک اور یو ٹیوب پر اپنی ایک نظم ’’ ریزسٹ مائی پیپل ریزسٹ ، ریزسٹ ‘‘ (میرے لوگو مزاحمت کرو ، مزاحمت کرو ) پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی ، اس ویڈیو میں فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی فوجیوں پر پتھراو کرتے اور بم پھینکتے ہوئے بھی دکھایا گیا تھا ۔ اس سے کچھ ہی روز پہلے اس فلسطینی لڑکی کو اسرائیلی جیل سے سزا مکمل کرنے کے بعد رہائی مل گئی جس نے ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ رسید کیا تھا ۔اسرائیل کے نئے اقدامات سے مزاحمت کا یہ جذبہ اورزیادہ مستحکم ہورہا ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جارحیت کی تمام حدوںکو پار کرکے بھی کسی قوت نے کسی مظلوم قوم کو ہمیشہ کیلئے روندھ کر رکھ دیا ہو ۔ بہت کمزور قوموں نے مزاحمت کے جذبے سے طاقتور ترین قوموں کو آخر کار زیر کردیا ۔حالانکہ فلسطینی مظلوم نہیں تھے ۔ ان کے پیچھے مسلم دنیا کی عظیم ترین قوت کھڑی تھی لیکن اس عظیم قوت نے مصلحتوں کی پناہ گاہوں میں خود کو محصور کررکھا ہے ۔امریکہ کا سب سے بڑا دوست سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے ۔ نئے ولی عہد کو ایران اسرائیل سے بڑا دشمن نظر آرہا ہے اور اس نے قبلہ اول اور فلسطینیوں دونوں کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ پورا جزیرۃ العرب عالمی قوتوں کی کشاکش کا میدان جنگ بن رہا ہے ۔ دونوںطرف سے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکا ر ہیں، ایسے میں کون ہے جو فلسطینیوں کی حالت زار کی فکر کرے اور قبلہ اول کی بازیابی کا عزم لیکر اٹھے ۔مایوسی کے اس اندھیرے میںامید کی اگر کوئی کرن ہے تو وہ فلسطین کے وہ نوجوان ہی ہیں جو بے سرو سامانی کی حالت میںمزاحمت کی لامثال تاریخ رقم کررہے ہیں ۔
تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں قوموں کی ترجیحات بدل رہی ہیں ۔نئے اہداف مقرر ہورہے ہیں ،نئی سوچیں ابھر رہی ہیں اور نئے نظرئیے پنپ رہے ہیں ۔ امریکہ کی سپر میسی کو کئی چلینج درپیش ہیں ۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر یورپ نے اس کی تقلید نہیں کی ۔ روس اور چین کے ساتھ نئے اتحاد قائم کررہے ہیں ۔ یہ تبدیلیاں اس بڑ ی تبدیلی کا آغاز ہے جو دنیا میں نئی سیاسی اورفوجی صف بندیاں ترتیب دے کر طاقت اور قوت کے موجودہ نظام کو بدل کر رکھ دے گا۔ ایسا ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے انتظام میں کبھی کسی ایک قوت کو ثبات حاصل نہیں رہا ہے ۔ تبدیلیاں خود مظلوم قوموں کیلئے حمایت اور مدد کی مضبوط قوتیں پیدا کریں گی ۔ صرف وہی قومیں جارحیت اور بربریت کے طوفان میں غرق ہوکر فنا ہوجاتی ہیں جن کے اندر مزاحمت کا عزم باقی نہیں رہتا ۔ فلسطینیوں میں یہ عزم ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کے باوجود پختہ ہوتا جارہا ہے کہ ان کے اپنے بھی انہیں یکہ و تنہاچھوڑ چکے ہیں اور ان کی قیادت کا بحران کافی عرصے سے موجود ہے ۔ قیادت اس موقعے پر بھی اندرونی خلفشار کی شکار ہے جس کے نتیجے میں نہ مزاحمت کا نظم و ضبط اسے عالمی توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب ہورہا ہے اور نہ ہی اس کے لئے عالمی حمایت کی سبیل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔فلسطینی نوجوانوں کا عزم اسی طرح برقرار رہا تو وہ خود ایک نئی قیادت بھی پیدا کرے گا جو اس جدوجہد کو ایک نئی جہت عطا کرسکے گا جو بہرحال کامیابی سے ہمکنار ہوگی ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)