ترکی اور امریکہ کے درمیان حالیہ تجارتی و معاشی جنگ اور اس کے نتیجہ میں ترکی کی معیشت میں آئے بھونچال نے بہت سے لوگوں کو فکر مند کردیا ہے۔ لیکن معاشیات کے طلبہ کے لئے یہ ایک دلچسپ موضوع ہے ۔ اس بحران کے حقیقی اسباب ، ترکی اور امریکہ کے پیش نظر حقیقی اور طویل المیعاد معاشی و مالیاتی مقاصد اور بحران کے شارٹ ٹرم اثرات سے قطع نظر، اس کے ممکنہ لانگ ٹرم اثرات پر غور بہت سے چشم کشا حقائق سامنے لاتا ہے اور خصوصاً ترکی کی حکومت اس بحران سے جس طریقہ سے نپٹنے کی کوشش کررہی ہے، وہ نہایت امید افزا ہے۔
اس پورے بحران کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ گذشتہ چالیس پچاس برسوں میں امریکہ نے ساری دنیا میں اپنی چودھراہٹ کے تسلط کے لئے جن ہتھیاروں کا استعمال کیا، اُن میں سب سے کارگر ہتھیار ڈالر کا ہتھیار تھا۔ بریٹن ووڈ معاہدہ کے تحت پہلے ہی ڈالر کو ایک خصوصی مقام حاصل ہوگیا تھا۔ سونے کے عالمی ذخائر کا بڑا حصہ امریکہ کے پاس تھا اور امریکہ نے ڈالر کو سونے کے ساتھ وابستہ کر رکھا تھا۔ ملکوں نے اپنی کرنسیاں ڈالرز کے ذخائر کے مقابلہ میں چھاپنی شروع کیں اور انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ ڈالر کے بدلے میں جب چاہے سونا حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح ڈالر دنیا کی ’ریزرو کرنسی‘ بن گئی تھی۔ جب ۱۹۷۳ میں امریکہ نے سعودی عرب پر دباو ڈال کر یہ معاہدہ کرایا کہ سعودی عرب اور اوپیک کے دیگر ممالک تیل صرف ڈالر میں فروخت کریں گے، تو اس وقت بہت کم لوگوں کو اس معاہدہ کے دوررس اثرات کا اندازہ ہوا ہوگا۔ عالمی تجارت میں تیل کی خرید و فروخت، بہت زیادہ تھی۔ 2015 تک عالمی تجارت میں پہلا نمبر تیل کا تھا جس کی تجارت دو ٹریلین ڈالر سے متجاوز ہوچکی تھی۔ اس لئے ہر ملک کو بھاری مقدار میں ڈالر خریدنا ضروری ہوگیا۔ ڈالر اور امریکی ٹریزی بلوں کی مانگ ساری دنیا میں بڑھ گئی۔ تیل پیدا کرنے والے امیر ممالک، آنے والے ڈالروں کو دیگر چیزوں کی درآمد کے لئے استعمال کرنے لگے۔ اس طرح بہت جلد عالمی تجارت زیادہ تر ڈالرز میں ہونے لگی۔ پھر امریکہ نے یک طرفہ طور پر ڈالر اور سونے کا رشتہ ختم کردیا اور اپنی مرضی سے جتنے چاہے ڈالر چھاپنے لگا۔
چونکہ عالمی تجارت زیادہ تر ڈالر میں ہورہی تھی، تو ڈالر ہی کرنسیوں کا اصل پیمانہ بن گیا۔ پہلے کرنسیوں کی قدر ان کی قوت خرید خاص طور پر سونے کے مقابلہ میں جانچی جاتی تھی، اب ڈالر کے مقابلہ میں جانچی جانے لگی۔ ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کا کوئی سوال نہیں تھا کہ یہی اصل کسوٹی بن گئی لیکن دنیا کی دیگر کرنسیاں ڈالر کے مقابلہ میں گھٹتی بڑھتی رہیں۔ امریکہ کے پاس لامحدود قوت خرید آگئی۔ جتنے چاہے ڈالر چھاپے اور ( ایک طرح سے دنیا کے عوام سے قرض لے کر ) جہاں چاہےخرچ کرے۔ عالمی تجارت میں امریکہ کا حصہ بھی بہت زیادہ تھا۔ پھر بریٹن ووڈ کے عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک پر امریکہ کا مکمل تسلط تھا۔ غریب ممالک کو بھاری قرض ڈالر میں دیا جاتا اور ڈالروں میں قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی کے لئے انہیں مستقل ڈالر خریدنے پڑتے۔ اس طرح ان کی معیشتیں مکمل طور پر ڈالر سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ ڈالر میں خرید و فروخت کے نتیجہ میں دو غیر امریکی افراد یا اداروں کے درمیان ہونے والا تجارتی معاملہ بھی امریکی قانون کے حدود میں آجاتا ہے اس طرح اس معاملہ پر امریکہ کو کنٹرول حاصل ہوجاتا ہے۔
ڈالر کی اس قوت نے ایک طرح سے ساری دنیا کو امریکہ کے ہاتھوں میں معاشی یرغمال بنادیا تھا۔ ڈالر کی قوت کے ذریعہ کسی بھی ملک کی کرنسی کو گرادینا اس کے لئے نہایت آسان تھا۔ معاشی اور تجارتی پابندیاں لگاکر وہ کسی بھی ملک کی معیشت کو مفلوج کرسکتا تھا۔ اگر کسی ملک نے ایک بلین قرض لیا اور اس کی کرنسی کی قیمت نصف گرادی گئی تو اب اس کا قرض دو بلین ہوگیا۔ مرکب سود اس کے علاوہ ہے۔ یہ ظلم و استحصال اور یرغمالی کی وہ ہولناک ترین شکل ہے جس کا مقابلہ کسی زمانہ کا بھی کوئی مہاجنی سود نہیں کرسکتا۔ ساری دنیا کی معیشت پر ایسا کنٹرول شاید انسانی تاریخ میں کسی ملک کا کبھی نہیں رہا۔ امریکہ نے نہایت مکاری سے اپنی اس طاقت کا استعمال کیا۔ جب چاہا آناً فاناً ملکوں کی معیشتوں کو زمین بوس کردیا۔ ایک دن بلکہ چند گھنٹوں میں کرنسیوں کو کئی کئی گنا گرادیا۔ شدید معاشی بحرانوں میں مبتلا کیا اور آئی ایم ایف وغیرہ کے ذریعہ اپنی شرائط پر بیل آوٹ کرکے انہیں اپنا غلام بنالیا۔ معمر قذافی اور صدام حسین جیسے قائدین نے اس صورت حال کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو فوجی مداخلت کے ذریعہ ان سے نمٹ لیا گیا۔
اب یہ صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ پوتین کی قیادت میں روس نے ڈالر سے آزادی De-dollarisation کی طاقتور تحریک شروع کردی ہے۔ روس نے سب سے پہلے ڈالر میں حاصل کئے ہوئے قرضوں سے نجات حاصل کی، پھر اپنی بندرگاہوں میں ڈالر کے استعمال پر پابندی لگادی۔ ایران پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی ڈالر چھوڑ چکا تھا اور اس نے عالمی تجارت کے متبادل طریقے اختیار کرلئے تھے۔ گذشتہ مئی میں چین اور روس نے آپسی تجارت مقامی کرنسیوں میں کرنے کا معاہدہ کیا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایسا ہی معاہدہ روس اور ترکی کے درمیان ہوا اور اس کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے ڈالر کی لعنت سے نجات کی ترکیبیں سوچنی شروع کردیں۔برکس ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) نے متبادل عالمی بنک’ برکس بنک‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے چین نے سعودی عرب پر تیل کی قیمت یون میں قبول کرنے کے لئے دباو ڈالنا شروع کیاہے اور پیٹرو یوان لانچ کرکے تیل کی یوان میں خریدی کی راہ ہموار کی۔ اپنے ٹریلین ڈالر بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے ذریعہ بھی چین وابستہ ممالک کو مجبور کررہا ہے کہ وہ یوان مین تجارت کریں۔ ڈجیٹل کرنسی کی وجہ سے اب راست مقامی کرنسیوں میں کاروبار بھی ممکن ہوگیا ہے۔ ویننزویلا جیسے بعض ممالک کرپٹو کرنسی کو اختیار کررہے ہیں۔ یہ ساری صورت حال ڈالر کے لئے اور اس واسطہ سے امریکہ کی عالمی حکمرانی کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔اس خطرہ کو موجودہ انتہا پسند صدر ٹرمپ بہت شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ چنانچہ گذشتہ سال ڈسمبر میں انہوں نے جس قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں ان تمام مما لک کو امریکی معیشت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے جو ڈالر سے آزاد ہوکر تجارت و معاشی ترقی کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں ترکی نے بھی ڈالر کے اس استبداد کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ ترکی نے دو سال پہلے آئی ایم ایف کے تمام ڈالر قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ 2015 کے بعد روس اور ترکی کے تعلقات تیزی سے مستحکم ہونا شروع ہوئے۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے ممالک فرانس اور جرمنی نے بھی روس سے تعلقات بڑھائے۔
چند ماہ قبل ترکی نے روس کے ساتھ ڈالر کے بغیر تجارت کا معاہدہ کیا ۔ اس طرح ڈالر مخالف عالمی بلاک میں شامل ہوگیا۔ ترکی امریکہ کا ایک قدیم حلیف اور ناٹو کا ممبر ملک ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ ترکی کے بعد یورپ کے دیگر ممالک خصوصاً جرمنی اور فرانس بھی اس ڈالر مخالف بلاک میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ڈالر کی بلادستی پر بہت کاری ضرب ہوگی۔ ٹرمپ جیسا انتہا پسند قوم پرست یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے پوری قوت سے ترکی کی میعیشت پر ضرب لگا نے کی کوشش کی اور اس بات کی بھی کوشش شروع کی کہ ترکی کو ایسے اقدامات کے لئے مجبور کیا جائے کہ وہ پھر ڈالر کی بالادستی کو قبول کرے۔
ایسے بحرانوں میں عام طور پر ممالک دو طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔ ایک، وہ سود کی شرح بڑھادیتے ہیں (تاکہ بیرونی سرمایہ کاری بڑھے) اور دوسرے عالمی اداروں سے قرض لے کر اپنی معیشت کو بیل آوٹ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترکی پر ان دونوں اقدامات کے لئے شدید دباؤ ہے۔ یہ دونوں اقدامات پھر بالآخر ڈالر کی تقویت اور ڈالر پر انحصار کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ترکی کے حکمران ، ڈالر ی استعمار سے نجات چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے ان دونوں اقدامات سے انکار کردیا۔ ترکی حکومت، اس بحران کا جس استقلال کے ساتھ سامنا کررہی ہے، وہ نہایت قابل تعریف ہے۔ صدر اردوان نے نہایت سختی کے ساتھ شرح سود بڑھانے کی تمام کوششوں پر روک لگادی ہے اور شرح سود کو ’’ تمام برائیوں کی ماں اور باپ‘‘ ) (Father and Mother of all evils قرار دیا ہے۔ اسی طرح ترکی کے حکمرانوں نے یہ بات بھی متعدد بار کہی ہے کہ وہ ڈالر میں قرضے حاصل کرنے کی امریکی خواہش کبھی پوری نہیں کریں گے۔
اس کے بالمقابل اس بحران سے نمٹنے کے وہ بالکل غیر روایتی طریقے اختیار کررہے ہیں۔ پچھلے ہفتہ قطر کے ساتھ کرنسی کے تبادلہ کے معاہدہ نے ساری دنیا کو متحیر کردیا۔ اس معاہدہ کے مطابق دونوں ملکوں نے پندرہ بلین ڈالر کے مساوی قرضوں کا ایک دوسرے کی کرنسیوں میں باہم تبادلہ کرلیا ہے۔ اب یہ کرنسیاں دونوں ممالک باہم تجارت کے لئے استعمال کریں گے۔ اس طرح ڈالر کے استعمال کے بغیر گرتے ہوئے لیرا کو سہارا دیا گیا ہے۔ ترکی، اس طرح کے معاہدے دیگر ممالک سے بھی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چند دن پہلے جرمنی اور فرانس نے بھی اس طرح کے معاہدوں کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
ماہر معاشیات جان پرکنس نے، جن کی کتاب’’ Confessions of an Economic Hitman ‘‘بہت مشہور ہوئی تھی، ترکی کے ان اقدامات کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ان اقدامات سے دنیا بھر کے ممالک کے لئے امریکہ کے معاشی استحصالی ہتھکنڈوں سے مقابلہ کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔
ڈجیٹل کرنسی کے فروغ اوراس میں عالمی تجارت کے لئے ترکی نے طاقتور مہم چھیڑ رکھی ہے۔ ترکی کے وزیر صنعت صطفی وارنک نے جی ۲۰ کے عالمی اجلاس میں اس سلسلہ میں کئی تجاویز پیش کی ہیں۔
ٹرمپ کے ان اقدماات نے بلاشبہ ساری دنیا میں ڈالر کی وقعت گھٹا دی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکہ اس معاملہ میں اب قابل اعتماد نہیں رہا۔ وہ کبھی بھی ڈالر کو سزا اور انتقام کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ اس لئے جلد سے جلد ڈالر پر انحصار سے نجات کی فکر کرنی چاہیے۔ ترکی کے حکمران اس صورت حال کو ڈالر کے ظلم سے پاک ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کی طرف پیش رفت کے لئے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر مالیات برات البیراق، اس سلسلہ میں عالمی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ فرانس اور جرمنی کے بعد ستمبر میں بھی کئی ملکوں سے ان کی ملاقاتیں طئے ہیں۔ بہرحال یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ترکی کے حکمران ان مالیاتی آزمائشوں کا پوری استقامت سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ترکی جیسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کے لئے یہ بڑا جھٹکا ہے ۔ اور ترکوں کے لئے یہ بہت آسان ہے کہ وہ بیل آوٹ کراکے اس مصیبت سے نجات پائیں لیکن وقتی حل کے بجائے ترکی اسوقت ساری دنیا کو عالمی استعمار کے چنگل سے نجات دلانے کا عزم کئے ہوئے ہے اور اس کے لئے ترک قوم وقتی مسائل برداشت کرنے کے لئے تیار اور آمادہ ہے۔