استاد محترم انشائیہ

 ایس معشوق احمد

صاحبو! ہر فرد کوئی نہ کوئی شوق رکھتا ہے اور اس کو پورا ہوتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔شوق پالنا گناہ نہیں اور نہ شوقین مزاج رکھنا برا ہے گر حدود شکنی نہ ہو۔مرزا کہتے ہیں کہ ہر نوجوان کے تین شوق ہوتے ہیں، پہلا کہ کوئی آسمان کی پری آئے اور اس پر فریفتہ ہوجائے،دوسرا وہ کسی بڑے عہدے پر براجمان ہوجائے تاکہ اس کی زندگی آرام سے کٹ جائے اور تیسرا یہ کہ دنیا اسے جانتی ،مانتی اور پہچانتی ہو۔ہمارے شوق نوجوانوں سے مختلف تو نہیں البتہ بچپن سے ہی ہم ایک شوق پال رہے ہیں کہ خدا وہ وقت دکھائے جب ہمارا شمار مستند استادوں میں ہو اور ہمارے ناقص علم سے طلباء و طلبات بلا امتیاز فیض پائیں۔ چہارسو ہمارے علم کے چرچے ہوں اور جس گلی کوچے سے ہم گزریں بس یہی صدا آئے کہ استاد محترم تشریف لارہے ہیں، استاد محترم جارہے ہیں۔استاد کہلانا تو آسان ہے لیکن استاد بننا بڑا کٹھن ہے۔ ایک بزرگ جو استاد کا درجہ رکھتے تھے جب ایک کام کے حوالے سے پریشان ہوئے اور ان کی سمجھ میں بات نہ آئی کہ کیا کرنا چاہیے تو ایک سات سال کے بچے نے ان کی مشکل کو آسان کیا اور مناسب تجویز دی جس سے نہ صرف مسئلہ حل ہوا بلکہ کام بھی درست ہوا۔مرزا کہتے ہیں کہ استاد کی پہچان عمر سے نہیں ہنر سے ہوتی ہے۔ ہمارے دل میں جو استاد بننے کی خواہش کلی بن کر کھلی تھی ایک دن پھول بنی۔ہمارے استاد کہلانے کے راستے میں جو مشکلات درپیش تھیں ان کو شکست ہوئی اور خوشیوں نے میدان میں آکر جشن منایا۔اس جشن کی روداد آپ سن لیجیے جس کے شور نے چشم فلک کو سر پر اٹھایا اور آگندہ گوش کو بیدار کیا۔ایک روز یوں ہوا کہ ہمارے خواب کو نیک تعبیر ملی اور ہمارا استاد محترم کہلانے کا شوق پورا ہوا۔ہم پر رب کا کرم کب اور کیسے ہوا اور ہمیں استاد محترم کا خطاب کیوں کر ملا اس قصے کو کان لگا کر سن لیجیے۔
بھلا ہو شوشل میڈیا کا جس نے ہم جیسے معمولی لوگوں کو گھروں کے اندر پہنچایا۔جس فرد کے ہاتھ میں فون ہے وہ ہماری تصویر ،تحریر اور تقدیر دیکھ سکتا ہے۔ اسی فون کی کرامات ہیں کہ کبھی کبھار لوگ ہمارے ساتھ رابطہ کرکے رابطے میں رہتے ہیں۔ایک خاتون نے ہم سے رابطہ کیا اور واٹس ایپ پر اخبار کی تصویر بھیجی جس میں ان کا افسانہ آیا تھا۔ساتھ ہی لکھا تھا کہ اس افسانے کو دیکھ لیجیے استاد محترم، آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی۔استاد کا مرتبہ ملنے پر ہمیں جو خوشی ہوئی اسی شادمانی اور جوش میں، ہم نے افسانہ پڑھا۔ اپنی نئی طالبہ کو انتظار کرانا مناسب نہ جانا سو جلد انہیں اپنی رائے لکھ بھیجی کہ بیٹا لکھتی رہو، افسانہ اچھا ہے ، خیال منفرد ہے ، زبان میں البتہ کجی در آئی ہے اور املا تھوڑا بگڑا ہوا ہے۔ اس کجی اور بگاڑ کو دور کرو تاکہ افسانہ قدرے بہتر ہو جائے۔اس مشورے کا اثر ان پر اتنا ہوا کہ روز ہی اپنی تحریریں بھیجنے لگی اور استاد کہلانے کے چکر میں ہم مشوروں پہ مشورے دیتے رہے کبھی تحریر کو پڑھ کر تو کبھی فقط عنوان دیکھ کر۔پھر وہ وقت بھی آیا جب اس راز سے پردہ اٹھا کہ جس کو ہم استادانہ جوش میں بٹیا کہا کرتے ہیں وہ اصل میں ہماری نانی جان کی عمر کی ایک بزرگ خاتون ہیں جو اپنی تحریر جب کسی اخبار میں چھپنے کے لئے بھیجتی ہے تو ساتھ میں اپنی جوانی کی تصویر بھی بھیج دیتی ہے۔اخبار میں جو تصویر ان کی تحریر کے ساتھ آتی ہے وہ انہوں نے سولہ برس کی عمر میں کھینچوائی تھی۔یہ حقیقت جان کر ہم پہلے نادم ہوئے، پھر شرمندہ اور پھر شرمسار ۔ ان مراحل سے جان بچی تو اپنی خفت مٹانے کے لئے ایک دن جرأت کرکے ہم نے انہیں خط لکھا۔آپ سے تو ہم نے راز کچھ نہ رکھا سو وہ خط بھی پڑھ لیجیے جو ہم نے اس عمر رسیدہ اور بزرگ خاتون کو لکھا تھا۔
نانی جان آداب
آپ کے افسانے چند سالوں سے تواتر سے پڑھتا ہوں۔آپ کے افسانے اس مریض کی طرح ہیں جس کی حالت میں ان تھک کوششوں کے باوجود سدھار نہ آئے۔وہی املا کی بے قراری ، وہی جملوں کا تڑپنا ، وہی بے ربط خیالات کی بے چینی،غرض مرض بڑھتا گیا جوں جوں اصلاح کی۔ نووارد جوش میں لکھ لیتا ہے لیکن کیا نہیں لکھنا ہے اس سے بے خبر ہوتا ہے۔مجھے استاد کہلانے کا شوق ہے اور اس شوق میں نکمے استاد کا داغ لگ جائے مجھے برداشت نہیں سو میرا مشورہ ہے کہ وہ کیجیے جس میں آپ کی مہارت ہے ضروری نہیں کہ ہر فرد ہی ادب کی زلفیں سنوارے۔ آپ کا مرتبہ اور عمر جانے بغیر آپ کی شان میں نیک نیتی پر مبنی مشورے دے کر بڑی گستاخی کررہا ہوں اس کے لئے طالب عفو ہوں۔ ویسے غلطی میری نہیں خرابی آپ کے افسانوں میں ہے۔معشوق ہونے کے باوجود میں نے آپ کو اپنی بیٹی بنایا۔بعض نیک بخت ایسے بھی ہیں جن کو تحریر پسند آئے نہ آئے تصویر ضرور پسند آتی ہے اور فریفتہ ہوکر وہ دل کے فریم میں تصویر یار فٹ کردیتے ہیں۔اسی سال کی ہوکر اٹھارہ سال کی تصویر تحریر کے ساتھ لگانا مناسب نہیں کہ اس سے ایڈیٹر ہی جھانسے میں نہیں آتا قارئین بھی بہک جاتے ہیں۔ خدارا ایڈیٹر کے جذبات اور قارئین کے احساسات سے نہ کھیلیں کہ دونوں کی نظر کم سن حسینہ پر پہلے پڑتی ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ بزرگ نوجوانوں کی سی حرکتیں کرنے لگیں تو سمجھ جاؤ کہ دال ہی کالی نہیں بلکہ بزرگوں کی نیت اور اعمال بھی سیاہ ہیں۔
خدا کا بندہ نہایت شرمندہ
آپ کا استاد محترم
یہ خط پڑھنے کے بعد ان پر جو گزری سو خدا جانے مجھے یہ نقصان ضرور ہوا کہ کان استاد محترم سننے کو ترس گئے ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ ماہر کے دماغ کو ظاہر داری کا کیڑا کاٹ لے تو اس کے ہنر کے رنگ میں زنگ لگ جاتا ہے ۔
���
موبائل نمبر؛ 8493981240