خورشید ریشی
نیشنل ایجوکیشن پالیسی ٹونٹی ٹونٹی کے بینر تلے کل یعنی نو اگست کو تعلیمی اداروں میں والدین اور اساتذہ کرام کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا۔تعلیمی نظام میں والدین کا رول سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ زیادہ تر وقت طلاب اپنے گھروں میں ہی گزارتے ہیں اور اس دوران وہ کن کن سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں، اس کا علم والدین کو ہی ہوتا ہے ۔اساتذہ کرام تعلیمی اداروں میں طلاب کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں کے ذریعے اپنے طلاب کی رہنمائی اور رہبری کرتے ہیں اور انہیں زندگی کے مختلف مسائل پر قابو پانے اور ان سے باہر نکلنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں ۔اساتذہ کرام تدریسی کتابوں کو پڑھاتے ہوئے اور جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے بھی انہیں اخلاقی اقدار سے روشناس کراتے ہیں تاکہ ؎
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا،خدا کا ترجمان ہوجا
لیکن اساتذہ کرام کی یہ تمام تر کوششیں اسی وقت سود مند ثابت ہو سکتی ہیں جب والدین ایک تو اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور دوسرا یہ کہ جب وہ اساتذہ کرام کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائیں اور اپنے بچوں کی کارکردگی کے بارے میں اساتذہ کرام سے جانکاری حاصل کریں ، وقت وقت پر تعلیمی اداروں کا رخ کریں اور اپنے بچے کو اساتذہ کرام کے سامنے لا کر اس کی مجموعی کارکردگی پر بات کریں۔ تب جا کر طلاب کی کارکردگی میں بہتری کے آثار نظر آنے لگیں گے۔
کئی ایک تعلیمی اداروں میں عوامی نمائندوں سول انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے اعلی عہدے داروں نے شرکت کرتے ہوئے والدین اور اساتذہ کے درمیان موثر رابطوں پر بات کی اور ساتھ ہی تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا، اس موقعے پر مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اگر چہ ان پروگراموں کے انعقاد کرنے کا مقصد صرف اور صرف بچے ہیں تو پھر ہمیں اولین ترجیحات میں بچوں کو تعلیمی اداروں میں ہر وہ ممکن سہولیات فراہم کرنی ہوگی، جس سے وہ اپنی درس و تدریس کی سرگرمیوں کو بغیر کسی پریشانی کے جاری رکھ سکیں ۔ مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ دعوت نامہ کے بغیر بھی تعلیمی اداروں کا رخ کریں اور اساتذہ کرام سے رابطہ قائم رکھیں کیونکہ والدین اور اساتذہ کے درمیان موثر رابطہ بچوں کی تعلیمی اور ذاتی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔والدین اور اساتذہ کو ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ وہ بچوں کی کارکردگی اور رویے کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر سکیں ،اس سے بچوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔مقررین نے والدین سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ والدین اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی کی تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس کے علاوہ اگر بچے کو اسکول میں کسی بھی مضمون کے حوالے سے کوئی مشکلات درپیش آتی ہے یا اسکول میں بچے کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو بغیر کسی تاخیر کے اساتذہ کرام کے ساتھ رابطہ کریں۔
کئی ایک تعلیمی اداروں میں طلاب نے اپنے والدین کی موجودگی میں اس پروگرام کی مناسبت سے مختلف پروگراموں کے ذریعے یہ واضح پیغام دیا کہ بچوں کی کارکردگی میں بہتری کے لئے اساتذہ کرام اور والدین کے درمیان رابط ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہی دو شخصیات ایسی ہیں جو ایک بچے کو اپنے سے بڑے عہدے پر فائز ہونے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔نیشنل ایجوکیشن پالیسی ٹونٹی ٹونٹی کے بینر تلے ان ملاقاتوں کا سلسلہ تمام تعلیمی اداروں میں آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا اور اس امید کے ساتھ ان پروگراموں میں والدین کی کثیر تعداد شریک ہوگی اور اساتذہ کرام کے ساتھ والدین کے روابط میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔ اس پروگراموں کے انعقاد کرنے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ طلاب کو پہنچے گا اور تعلیمی اداروں میں ایک نئی تحریک دیکھنے کو ملے گی جہاں پر والدین اساتذہ کرام اور سول انتظامیہ صرف اور صرف بچے کے مستقبل،بچے کی ترقی اور بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوگی اور اگر ایسا سلسلہ مستقبل میں جاری رہا تو اس کا اثر تعلیمی اداروں میں آنے والے وقت میں دیکھنے کو ملے گا۔
[email protected]>
اساتذہ کی عظمتوں کا ماضی اور حال !
کیا ساری صورت ِ حال بدل چکی ہے؟
غورطلب
محمد اکرام
صحت مند اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں معاشرے کے جن افراد کا خونِ جگر شامل ہوتا ہے، انھیں باشعور، باہنر اور تعلیم یافتہ بنانے میں اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اساتذہ ہی علم کے وہ چراغ ہوتے ہیںجن کی سربراہی اور رہنمائی میں کسی بھی معاشرے کے نونہال اور نوجوان نسل کا مستقبل روشن ہوجاتا ہے اور انہیں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، حاکم و حکمراں بنانے اور زندگی کے دیگر اہم شعبوںمیں کام کرنے کے لائق بنانے میں اپنی کاوشیں،توانائی، محنت اور وقت صرف کرتے ہیں۔ اساتذہ صرف بچوں کو تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ بہتر تربیت کے ساتھ اُن کے خوابوں کو نئی زمین اور نیا آسمان عطا کرتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں خوبصورت خاکہ تیار کرتے ہیںاورانہیں مستقبل کے لئے ایک ایسی راہ دکھاتے ہیں جن سے بچے صرف منزل مقصود تک نہیں پہنچتے بلکہ کامرانی کی ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس پر پورا معاشرہ رشک کرتا ہے۔ تعمیرِ انسانیت اور علمی ارتقاء میں اساتذہ کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ نسلوں کی تعمیر وترقی، معاشرے کی فلاح وبہود اور افراد کی تربیت سازی کی وجہ سے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں ایسا مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان اپنے باغ کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔استاد کی عظمتوں کے بہت سے حوالے ہیں اور اس تعلق سے تاریخ کی کتابوں میں بہت سے واقعات بھی درج ہیں۔ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ خلیفہ ہارون الرشیدکے دو بیٹے امام نسائی کے پاس زیر تعلیم تھے۔ ایک بار استادکے جانے کا وقت ہوا تو دونوں شاگرد ان کی جوتیاں ٹھیک کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ دونوں بھائیوں میں اس بات کو لے کر تکرار ہوگئی کہ پہلے وہ جوتیاں درست کرےگا۔ استادِ محترم نے راستہ بتایا کہ دونوں ایک ایک جوتا درست کردیں، اس طرح دونوں کو استاد کی خدمت کا موقع مل گیا۔اسی طرح
مشہور مصنف نے اپنی کتاب ’زاویہ‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ روم میں قیام کے دوران ایک دن اُن کا ٹریفک چالان ہوا۔ مصروفیات کی وجہ سے وہ چالان کی رقم وقت پر جمع نہ کروا سکے، لہٰذا انھیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ سوالوں کے دوران جج نے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یونیورسٹی پرفیسر ہوں۔
یہ سُننا تھا کہ جج نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا کہ Teacher in the Court ( عدالت میں استاد ہے)۔ یہ سُنتے ہی سب احتراماً اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ مصنف اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ اُسوقت مجھے یہ نقطہ سمجھ آیا کہ اِن ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔استاد کی عزت اور اہمیت کے تعلق سے علماء اور دانشوروں کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ سب ہی نے استاد کو اپنی اپنی نظرسے جانچا اور پرکھا ہے۔مشہور مفکر جون لاک کے نزدیک معلمی کا پیشہ حکمرانی سے بھی زیادہ مشقت آمیز ہے۔اسی طرح سکندر مقدونی کا کہنا ہے کہ،’’ میں اپنے والد کا احسان مند ہوں کہ وہ اس دنیا میں میری آمد کا ذریعہ بنے اور میں اپنے استاد کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے شعور کی دنیا میں ایک نئی زندگی دی۔‘‘سکندر اعظم سے کسی نے اپنے استادکے بے حد احترام کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواباً کہا کہ،’’ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا ،جب کہ میرے استاد، ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گئے۔ میرا باپ میری ایسی زندگی کا باعث بنا جو فانی ہے، مگر میرے استادحیاتِ جاوداں کا سبب ہیں۔ میرا باپ میری پرورش کرتا تھا اور استادو میری روح کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘اساتذہ صرف بچے کی روح کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ شفقت و محبت کا وہ عنوان ہوتے ہیں کہ ہر موڑ پر ان کی شفقتیں بچوں کی کلفتیں اور اذیتیں ختم کردیتی ہیں۔ پرانے زمانے کے اساتذہ بچوں کی پیشانی پر محبت اور شفقت کی وہ عبارت لکھ دیتے تھے کہ زندگی کی آخری سانس تک یہ عبارتیں ان کے وجود میں روشن رہتی تھیں، مگر آج کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے دور میں اساتذہ کی محبت اور طلبا کی اطاعت میں بھی بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ طالب علموں کا انداز بھی بدل چکا ہے اور اساتذہ کا طرزِ فکر بھی۔
پہلے اساتذہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی بچوں پر صرف کرتے تھے، مگر اب سارا منظر بدل چکا ہے۔ وقت اور توانائی کے مرکز بھی تبدیل ہوچکے ہیں اور طلبا میں اساتذہ کے تئیں وہ عقیدت اور محبت بھی نہیں رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم تو عام ہوگیا ہے، مگر تربیت اور تہذیب میں کمی ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں بچوں اور اساتذہ دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ایسے میں اساتذہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت اور راہنمائی کریں۔ تعلیم کے ساتھ غلط راستے سے بچنے اور صحیح راستے پر چلنے کی تلقین کریں، اساتذہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو بچوں کے لیے مخربِ اخلاق ہوں کیونکہ بچوں کا شعور پختہ اور بالیدہ نہیں ہوتا ہے، انھیں تربیت اور راہنمائی کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔اسی طرح شاگردوں کی ذمے داری ہے کہ جب وہ استاد سے درس حاصل کررہے ہوں تو ان کے سامنے بہت ادب و احترام سے بیٹھیں، پورا دھیان صرف اُن کی باتوں پر ہو۔ اُن کی ڈانٹ کو اپنے حق میں مثبت انداز میں لیں کیونکہ اساتذہ اپنے شاگرد کے حق میں کبھی بُرا نہیں سوچتے، اگر پڑھ لکھ کر آپ اعلیٰ منصب پر فائز ہوں گے تو اُن کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائےگا۔