قیصر محمود عراقی
ہر مرد عورت کی خواہش ہو تی ہے کہ اس کا شریک حیات اس کو سمجھے ، اس کے غم میں اس کی دلجوئی کر ے ،خوشی کے وقت اس کی مسرتوں میں شریک ہو اور زندگی کی دوڑ میں اس کے ساتھ قدم ملا کر چلے ۔ گھر اگر پُر سکون ہو تو پھر یوں سمجھو کہ اس کے مکینوں کو دنیا میں ہی جنت مل گئی لیکن اگر گھر کا سکون غارت ہو تو نہ صرف یہ جہنم کی مثل بن جا تا ہے بلکہ میاں بیوی کے علاوہ بچے اور گھر کے دیگر افراد بھی اس آگ کی تپش میں جھلس کر مریض بن جا تے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میاں اور بیوی کے درمیان کیسے خوشگوار تعلقات قائم ہوں کہ گھر جنت کا نمونہ بنے اور دونوں کی رفاقت دوسروں کے لئے مثالی بن جائے اور اس گلستان میں بچے ثمرآور درخت کی مانند پھل پھول کر ایسا توانا درخت بنیں کہ جن کے زیر سایہ دوسرے بھی بیٹھ کر سکون کا سانس لے سکیں ۔ میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات نہ ہوں تو پھر ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جا تی ہے ۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ ایک جوڑا جو بزرگوں کی دعائوں اور خوشیوں بھرے ماحول میں نئی مشترک زندگی کے سفر کا آغاز کر تا ہے ، ان کے درمیان ایسی تلخیاں کیسے جنم لے لیتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا دوبھر ہو جا تا ہے کہ پھر یا تو علیحدگی کا ہی راستہ رہ جا تا ہے یا پھر اگر خاندان کی ناموں یا بچوں کو پائوں کی زنجیر سمجھ کر ساتھ زندگی گذرتی بھی رہے تو پھر خوشیاں توکہیں دور چلی جا تی ہیں اور تلخ ماحول انسان کو زندہ درگور کر دیتا ہے ۔
کیا کبھی ہم نے یہ سونے کی کوشش کی ہے کہ ازدواجی زندگیوں میں تلخیاں کیوں جنم لیتی ہیں ؟ اور تلخیوں کو خوشیوں میں در آنے کا کیسے موقع مل جا تا ہے ؟ ازدواجی زندگی میںتلخیوں کا سبب جا ننے کی کوشش کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اعتماد کے سہارے دو خاندان اور دو افراد ایک ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کر کے نئی زندگی کے آغاز کا سفر کر تے ہیں لیکن اس اعتماد کے سہارے شروع ہو نے والے سفر کے بیچ میں ہم کسی نہ کسی روزن سے بے اعتماد ی کو در آنے دیتے ہیں اور پھر اس درآ نے والی بے اعتمادی کے چھوٹے سے ذرے کو تلف کرنے کے بجائے اسے پہاڑ بننے کا موقع دیتے رہتے ہیں اور جب پانی سروں سے اونچا ہو نے لگتا ہے تو اس کے زیر سایہ بیٹھ کر ازدواجی زندگی کا سکون غارت کر نے لگتے ہیں ۔ کیوں ہے نا نہایت ہی احمقانہ بات ، آئیں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دلوں سے شک اور بے اعتمادی کو نکال کر آپ کسی طرح پرُسکون اور خوشگوار ازدواجی زندگی گذار کر گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں ۔
ہمارے یہاں ایک دوسرے کو سمجھنے کا آغاز شادی کے بعد شروع ہو تا ہے لیکن اگر شادی خاندان میں ہو تو پہلے سے ایک دوسرے سے علیک سلیک ہو تی ہے ، یوں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا آسان ہو جا تا ہے ، شادی کے بعد میاں بیوی کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی پسند ، ناپسند ، مزاج اور رویوںکا بغور مطالعہ کریں ۔ اس طرح وہ جان سکتے ہیں کہ کس ماحول میں وہ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں بیوی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کیونکہ وہ بیوی کے ساتھ ساتھ بہو، بھابھی اور جیٹھا نی بھی ہو تی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے رشتے ہو تے ہیں جن میں وہ نکاح کے تین بولوں کے بعد بندھ جا تی ہے ،اس لئے اگر وہ سسرال اور دیگر نئے رشتے داروں اور گھریلو ماحول کے متعلق جان لے اور سلیقے سے کام لے کر تھوڑادر گزر اور تھوڑی مصلحت کے
ساتھ ان کے ساتھ ویسا بر تائو کر ے تو کوئی شک نہیں کہ کچھ ہی دن میں سارا سسرال اس کے گیت نہ گا تا پھرے ، ویسے بھی بہو کو زندگی سسرال والوں کے ساتھ گزارنا ہو تی ہے، اس لئے اگر وہ ان کا اعتماد حاصل کر لے تو بہت مشکلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ اس طرح شک ایک بیماری ہے جو تمام فساد کی جڑ ہے، اس لئے بہتر ہے کہ میاں بیوی دل میں شک کے ننھے پودے کو تناور درخت بننے سے پہلے ہی کاٹ دیں ۔ میاں بیوی میں اگر کسی ایک فریق کو دوسرے پر کسی قسم کا شک ہو تو اسے اول تو کسی تیسرے فرد پر ظاہر نہیں کر نا چاہئے ، دوم یہ کہ آپس میں بیٹھ کر اس موضوع پر صاف صاف بات کر لینی چاہئے، لیکن اس کے لئے موقع محل کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دوسرے فریق کا مزاج خوشگوار رہے تو پھر ہلکے پھلکے انداز میں بات شروع کردیں اور آرام آرام سے بات مکمل کر کے اس شک کو دل سے صاف کر نے کی کوشش کریں ، یاد رکھیں کہ باہمی صلح صفائی ، باہمی اعتماد کے فروغ میں بھی بہت اہم ثابت ہو تی ہے ۔ ہفتہ دس دن میں ایک آدھ بار اپنے رفیق حیات کے ساتھ سیرو تفریح کے لئے گھر سے باہر کا رخ کر نا باہمی اعتماد اور پیار و محبت میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔ اس سے باہمی اعتماد اور خلوص میں بھی اضافہ ہو تا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں سمجھنے کا مواقع بھی ملتے ہیں ،۔ اسی طرح سالگرہ یا تہوار کا موقع ہو تو ایک دوسرے کو تحائف ضرور دیں ، ضروری نہیں کہ تحفہ بہت قیمتی ہو ، بس آپ کو اپنے شریک سفر کے مزاج سے آگہی ہو نی چاہئے ، اگر آپ کو دوسرے فریق کے مزاج سے آگہی ہو گی تو چھوٹی سی چیز بھی دوسرے فریق کی خوشیوں میں بہت اضافہ کر دیں گی ۔ دکھ سکھ انسان کی زندگی کے ساتھ چلتے ہیں ،اگر خدا نخواستہ ایک فریق طبیعت کی ناسازی کا شکار ہے تو دوسرا اس کی دلجوئی کر ے،اس کے آرام کا خیال رکھے ، یہ چھوٹی سے بات ضرور ہے لیکن باہمی اعتماد اور محبت میں بہت اہم کر دار ادا کر تی ہے ۔
یاد رکھیں ! بیوی ہو یا شوہر دونوں اس رشتے کے علاوہ انسان بھی ہیں اور احترام آدمیت انسان کے مزاج کا پتا دیتا ہے اس لئے کبھی ایک فریق خود کر دوسرے کا حاکم نہ سمجھے بلکہ برابری اور رواداری کے اصول پر بر تائو کر ے ، جس میں محبت کی چاشنی موجود ہو ، میاں بیوی ایک دوسرے سے باہمی مشورے کر تے رہیں تو اس سے اعتماد بھی بڑھتا ہے اور مسائل بھی سلجھ جا تے ہیں ۔ لہٰذا باہمی اعتماد اور محبت کے فروغ کے لئے صلاح مشورہ کر تے رہیں ، ہمیں یقین ہے کہ اگر ان چھوٹے چھوٹے چند اصولوں پر عمل کیا جا ئے تو زندگی کو سہل اور مثل جنت بنانا نا ممکن نہیں یقین نہ آئے تو ان مشوروں پر عمل کر کے دیکھ لیں ، خود ہی جان جائیں گے ۔
Mob:6291697668
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔