بلا شبہ ہر انسان اپنی دنیاوی زندگی کو بہترین اور حسین انداز میں گزارنا چاہتا ہے جس میں نہ معاشی پریشانیاں ہوں اور نہ ہی معاشرتی بُرائیاں۔ ہر طرف سے سکون واطمینان کے ساتھ اس کے شب وروز بسر ہوں۔ ذرا غور کریں کہ انسانی تہذیب و تمدن کی ابتداء خاندان سے ہی ہوتی ہےاورمحبت و انسیت جو انسانی نفس کے ضمیر میں شامل ہے،خاندان کے استحکام اور بقا ءکا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی،جسے انسانی ترقی کا عروج و انتہا سمجھا جاتا ہے، اس صدی نے جہاں انسانی دماغ کی ترقی کی انتہا کو ظاہر کردیا ہے، وہیں یہ انسانی محبت کی تباہی کا آغاز بھی ثابت ہوئی ہے۔ اس نے مادی سہولتوں، آسانیوں اور مشینوں کے عوض انسانی وجود سے وابستہ پاکیزہ رشتوں اور محبتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ موجودہ دور میں انہی بنیادوں پر نہ صرف مغرب میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہےبلکہ مشرق میں بھی انسانی رشتوں اورمحبتوں میں کشیدگی اور خلفشار پیدا کرچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان مرد اور عورت کے درمیان شادی کے ذریعے وجود میں آتا ہے، جسے شوہراور بیوی کا نام دیا گیاہے، اس کی بنیاد محبت پر ہوا کرتی ہے اور باہمی احترام و ہمدردی اور ایثار و اعتماد سے ہی یہ رشتہ قائم رہتا ہے۔ اسی لئے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار قرارد یا گیا ہے۔ اسلام نے میاں بیوی کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کر دئیے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرہ عمل ہے، جس میں رہ کر کام کرنا ہے۔ اسلامی معاشرے میں بیوی، بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار مرد ہے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام و انتظام کرے اور گھر کو خوش اسلوبی سے سنبھالے، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوگا، جب زوجین کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ودائم رہے اور ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار رہے۔جس کے لئےشوہر اور بیوی کو اپنی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے سےکبھی تغافل نہیں برتنا چاہئے بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔حق تو یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کی خواہش و مرضی کے مطابق ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہ سکتی ۔
شوہر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اس کی فطرت،عادت اور مزاج میں سے ہے، اس لئے اُسے اپنی مرضی کے مطابق بیوی پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کے نسوانی مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اُس کی لغزشوں، کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزراور چشم پوشی سے کاملینا چاہئے۔کیونکہ اسلام نے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے۔ اگر کسی وقت بیوی کو تھکن،اُکتاہٹ اور تنگی محسوس ہو تو شوہر بیوی کے کام میں ہاتھ بھی بٹائے اور نرم یا میٹھی باتوں سے اس کی دلجوئی کرے، تاکہ اسے احساس ہو کہ وہ ایک نرم مزاج ،بردبار شوہر کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے جو اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کے معاملات پر توجہ بھی دیتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔اختلافات ازدواجی زندگی کا حصہ ہیں، ایسے وقت میں اختلافات کو دور کرنے کے لئے نرمی کے ساتھ افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے،اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو دونوں خاندان کے ایک ایک مخلص فرد کو ساتھ بٹھا کر مسئلے کو حل کیا جانا چاہئے۔ازدواجی زندگی میں سب سے نازک اور حساس مسئلہ ساس اور بہو کا ہوتا ہے۔
باشعور اور صالح شوہراگر اسلامی تعلیمات سے واقف ہو تو وہ بیک وقت دونوں کو خوش و خرم رکھ سکتا ہے، وہ نہ تو ماں کا نافرمان ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کے حقوق کا غاصب۔سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں مختلف ذرائع ابلاغ ہمارے معاشرے میںازدواجی زندگی کی تباہی و بربادی میں بہت اہم کردار اداکررہا ہے۔ سیریل، ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جانے والی عیش و عشرت کی زندگی حقیقی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ نوجوان طبقہ فلمی دنیا سے متاثر ہو کر ایک تصوراتی دُنیاقائم کر لیتا ہے، لیکن جب وہ شادی کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ زندگی تو اتنی حسین نہیں ہے جتنی فلموں میں دکھائی گئی تھی، چنانچہ وہ ڈپریشن، مایوسی، ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رہی سہی کسر فیس بک، واٹس اَپ، سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کی دنیا پوری کررہی ہے، جس کے نتیجے میں ازدواجی زندگی تلخ ہوتی جارہی ہے۔المختصر جس انداز میںآج زوجین انتشار و اضطراب،قلق و بے چینی کا شکار ہوکر اپنی ازدواجی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں،اُس کی سب سے بڑی یہی ہےکہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے یا انہیں اپنی مرضی کے مطابق کر لیا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ آج بھی اگر زوجین اسلامی تعلیمات اختیار کرلیںاور اپنےدائرۂ اختیار کو سمجھیں تو اُن کی ازدواجی زندگی یقیناً پُرسکون اورخوشگوار ہوجائے گی۔