ہمارے معاشرے میں یہ بات اب زبانِ زد عام ہے کہ موجودہ دور میں زوجین انتشار و اضطراب،نفرت و بے چینی کا شکار ہیں۔ سبب یہی بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے دین کے متعین شدہ حقوقِ زوجین کو بالائے طاق رکھ دیا ہے یا انہیں اپنی مرضی کے مطابق کر لیا ہے۔جس کے نتیجے میں اخلاقی قدریںزوال پذیر ہوچکی ہیں اور ازدواجی زندگی مسمار ہورہی ہے۔بعض لوگوں نے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں مختلف ذرائع ابلاغ نے ازدواجی زندگی کی تباہی و بربادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیریل، ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جانے والی عیش و عشرت کی زندگی حقیقی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ نوجوان طبقہ فلمی دنیا سے متاثر ہو کر ایک تصوراتی دنیاقائم کر لیتا ہے، لیکن جب وہ شادی کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ زندگی تو اتنی حسین نہیں ہے جتنی فلموں میں دکھائی گئی تھی، چناں چہ وہ ڈپریشن، مایوسی، ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رہی سہی کسر فیس بک، واٹس اَپ، سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کی دنیا نے پوری کر دی ہے۔ زوجین کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا اور ساتھ ہوکر بھی آپس میں بہت دوری ہوتی ہے،جس کے باعث ازدواجی زندگی تلخ ہوتی چلی جارہی ہے،اس بات سے واقف ہونے کے باوجود کہ خاندان مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعے وجود میں آتا ہے، جسے شوہراور بیوی کا نام دیا گیااور زوجین کے درمیان محبت و شفقت،احترام و ہمدردی اور ایثار و اعتماد کا رشتہ قائم کرتا ہےاور شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگار بناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوی، بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار مرد ہے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام و انتظام کرے اور گھر کو خوش اسلوبی سے سنبھالے، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوگا، جب زوجین کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ودائم رہے اور ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار رہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے واضح تعلیمات دی ہیں،احکام دئیے اور عملی مثالیں قائم کیں کہ بیوی کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا ہے اور خود بیوی سے کہا کہ کبھی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے سے غفلت نہ برتے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے میاں اور بیوی دونوں کو ہی دینی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جہاں شوہر کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، وہیں بیوی کے لئے لازم ہے کہ وہ جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ یعنی میاں بیوی کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کر دئیے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرہ عمل ہے، جس میں اس نے رہ کر کام کرنا ہے ۔ہاں! اختلافات ازدواجی زندگی کا حصہ ہیں۔ ایسے وقت میںضرورت اس بات کی ہے کہ اخلاقی دائروں میں رہ کر اختلافات کو دور کیا جائے اوراس میں نرمی کے ساتھ افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو دونوں خاندان کے ایک ایک مخلص فرد کو ساتھ بٹھا کر مسئلے کو حل کیا جائے۔ اگر اخلاص و محبت سے کوشش کی جائے تو ضرور اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ازدواجی زندگی میں سب سے نازک اور حساس مسئلہ ساس اور بہو کا بھی ہوتا ہے۔باشعور اور صالح شوہراگر دینی تعلیمات سے واقف ہو تو وہ بیک وقت دونوں کو خوش و خرم رکھ سکتا ہے، وہ نہ تو ماں کا نافرمان ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کے حقوق کا غاصب بنتا ہے،دونوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے اور دونوں کو ان کا صحیح مقام دیتا ہے۔ بشرطیکہ اس سلسلے میں ماں اور بیوی دونوں ہی اس میں اس کا ساتھ دیں۔یاد رہے کہ اکیسویں صدی کو انسانی ترقی کا عروج اور انتہا سمجھا جاتا ہے۔ جہاں یہ صدی انسانی دماغ کی ترقی کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ انسانی محبت کی تباہی کا آغاز بھی ہے اور اس نے مادی سہولتوں، آسانیوں اور مشینوں کے عوض انسانی وجود سے وابستہ رشتوں اور محبتوں کا خاتمہ بھی کر دیاہےاور اسی بنیاد پر مغرب و مشرق میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔بے شک اپنےبیوی، بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار مرد ہے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام و انتظام کرے اور گھر کو خوش اسلوبی سے سنبھالے، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوگا، جب زوجین کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ودائم رہے اور ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار رہے،جبکہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے میاں اور بیوی دونوں کو ہی دینی تعلیمات پر عمل کرنا لازمی ہے۔