ارودزبان کی ناک نہ کاٹیں!

 ایک   زمانہ تھا جب بامحاورہ زبان کا چلن تھا۔ ایک سے ایک صاحب طرز ادیب، انشاپرداز اور صحافی پیدا ہوتے تھےلیکن سن سنتالیس کے بعد جس طرح ایک سازش کے تحت اردو زبان کو مٹانے کی مہم چلائی گئی اس نے اس زبان کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ آج اردو کے بعض صحافی ہوں یا کئی اردو اساتذہ، غلط اردو بولنے اور لکھنے میں انھیں کوئی عار نہیں۔ حالانکہ زبان کی درستگی کے معاملے میں انہی دونوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اگر ہم آج کے اخباروں کی بات کریں تو بعض اوقات بڑی کوفت ہوتی ہے۔ ہندی کے اخبار یا ہندی کے نیوز چینل غلط اردو استعمال کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اردو کے صحافی جب غلط زبان لکھتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ چند مثالیں دینا چاہوں گا۔ آج کل اخباروں میں’’ رحم مادر‘‘ کو عام طور پر ’’مادرِ رحم ‘‘لکھا جا رہا ہے اور دھڑلے سے لکھا جا رہا ہے۔ یہ کسی ایک اخبار کا معاملہ نہیں۔ راقم نے کئی اخباروں میں اسی طرح لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک روزنامہ اخبار میں صفحہ اول پر کسی اہم شخصیت کے انتقال کی خبر شائع ہوئی۔ خبر میں لکھا گیا کہ ’’انھیں مختلف بیماریوں کے امراض کے تحت اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا‘‘۔ یہ تو بالکل ایسا ہی لغو ہے جیسے کہ ’’لب دریا کے ساحل کا کنارا‘‘۔ اضافت لگانے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی دراز ہوتا رہا تو ’’شب برات کی رات ‘‘اور ’’آب زم زم کا پانی‘‘ جیسی نامعقول ترکیبیں بھی شرم سے پانی پانی ہو جائیں گی۔ انہی اخباروں میں کبھی کبھی ’’میدانِ جنگ ‘‘کو ’’جنگِ میدان ‘‘بھی بنا دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے روزنامہ اخبار کے رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ’’اس بات کا یقینی شبہ ہے‘‘۔ یعنی شبہ اپنی جگہ پر کافی نہیں تھا، اس میں بھی یقین ٹھونس دیا گیا۔ اسی اخبار میں ایک صحافی کی گرفتاری کو اس کے رہا ہو جانے کے بعد بھی ’’مبینہ گرفتاری‘‘ لکھا جاتا رہا۔ گویا لفظ مبینہ کہاں اور کیسے استعمال ہوگا اس بارے میں رپورٹر کو پتہ ہی نہیں۔ رپورٹروں کی کیا بات کی جائے بعض ایڈیٹر حضرات بھی غلط لکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جب پچھلے الیکشن میں ایک سیاسی جماعت کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تو ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر نے اپنے اداریے میں لکھا کہ فلاں جماعت کے آگے ساری جماعتوں نے’’سرِ خم تسلیم کر دیا‘‘۔ گویا انھیں یہ نہیں معلوم کہ سرِ تسلیم خم دُرست ہے یا سرِ خم تسلیم۔ ایک بار ایک یونیورسٹی میں مرثیہ پر ایک سمینار ہوا۔ ایک اخبار میں اس تعلق سے شائع ہونے والی رپورٹ کی سرخی تھی ’’رسائی ادب پر سمینار‘‘۔ اس والے رسائی اور’’ ث‘‘ والے رثائی میں گویا کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ مشکل الفاظ کا بگڑنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب آسان الفاظ بھی بگاڑ کر غلط طریقے سے لکھے جائیں تو پھر کیا کہا جائے۔ ایک اخبار میں پانی کی نکاسی کے لیے سڑک کے کنارے لگائی جانے والی ’’جالی‘‘ کو ’’جعلی‘‘ لکھا گیا۔ گویا اس قاعدہ کے مطابق ’’جعلی ڈاکٹر‘‘کو ’’جالی ڈاکٹر‘‘ کہا جائے گا۔ لفظ صحیح کو بھی بعض اوقات غلط کر کے ’’سہی‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ایک اخبار میں لفظ غلط ’’ط ‘‘کے بجائے ’’ت‘‘ سے لکھا ہوا دیکھا گیا یعنی غلط کو اور بھی غلط کر دیا گیا۔ اسی طرح آڈیٹوریم کے معنی والے ’’ہال‘‘ کو ’’حال ‘‘کر دیا جاتا ہے۔ گویا ہال میں بیٹھے ہوئے تمام شرکا کو حال آگیا ہے۔ ایک روزنامہ اخبار میں دہشت گردی سے متعلق ایک خبر میں جسٹس عقیل رضوی کو جسٹس ’’اکھل رضوی‘‘ لکھا گیا۔ شاید یہ خبر ہندی سے ہوتے ہوئے اردو میں آئی ہوگی۔ اسی لیے عقیل صاحب اکھل صاحب ہو گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ’’چاند خاں‘‘مختلف ملکوں کا سفر کرتے کرتے چ کے جیم او رجیم کے گاف میں بدلتے بدلتے مضحکہ خیز نام میں تبدیل ہو گئے۔ 
ہمارے بعض اخبارات دوسری زبانوں کے الفاظ کو استعمال کرنے میں اپنی فیاضی دکھاتے ہوئے پورا کا پورا جملہ دوسری زبان کا لکھ دیتے ہیں۔ کسی دوسری زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں استعمال کرنا معیوب نہیں لیکن یہ استعمال اَحسن طریقے سے ہونا چاہیے بھونڈے طریقے سے نہیں۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کو حسن کاری کے ساتھ اور بر محل استعمال کرنے سے کبھی کبھار جو حسن پیدا ہو تا ہے وہ اپنی زبان کا لفظ بھی پیدا نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر ایک اخبار میں سرخی تھی ’’اسرار جامعی کا پنر جنم‘‘۔ یہاں پنر جنم نے جو بات پیدا کی وہ دوبارہ پیدائش سے نہیں ہو سکتی۔ سرسید نے اس فن کو دوسری زبانوں کے الفاظ کو اردو زبان میں پچی کاری قرار دیا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ دوسری زبان کے لفظ کو اس لیے جوں کا توں رکھ دیا جاتا ہے کہ مترجم یا خبر نویس کو اس لفظ کا متبادل معلوم نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر وہ تھوڑی سی مشقت کرے تو متبادل سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایک شہر میں فساد کے بعد کرفیو لگ گیا اور انتظامیہ نے دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم صادر کر دیا۔ ہندی کے ایک بڑے روزنامہ اخبار نے شہ سرخی لگائی ’’فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم‘‘ لیکن دہلی کے ایک بڑے اردو اخبار نے یوں سرخی جمائی ’’شوٹ ایٹ سائٹ کا آرڈر‘‘ گویا اردو میں دیکھتے ہی گولی مار دینے کا وہ اثر فسادیوں پر نہیں ہوگا جو شوٹ کرنے کا ہوگا۔ غلط اردو کے استعمال کی ایک اور مثال دینا چاہوں گا۔ ایک لفظ ہے نقص یعنی خرابی، جس کی جمع ہے نقائص لیکن ایک کتاب کے تبصرے میں نقص کی جمع ’’نقوص‘‘ لکھا گیا، جسے پڑھ کر ذہن نے فوراً کہا کہ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ آم کی جمع امرود اور مرد کی جمع مردود کر دیا جائے۔
گوگل ترجمے کی نیرنگیاں:
انٹرنیٹ نے صحافت کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ پیج میکنگ ہو یا پرنٹنگ ہر جگہ زبردست سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ خبروں اور مضامین کی ترسیل انتہائی آسان ہو گئی ہے۔ کاتبوں کی نزاکتوں سے نجات مل گئی ہے۔ بہت کم وقت میں بہت زیادہ کام آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے لیکن اس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ کم از کم زبان و بیان کے لحاظ سے۔ پہلے روزنامہ اخبارات کے دفتروں میں لمبی سی ڈیسک صحافیوں کی تربیت گاہ ہوا کرتی تھی۔ مشین پر انگریزی میں آنے والی خبروں کا ترجمہ کیا جاتا تھا لیکن اب وہ روایت ختم ہو گئی۔ اب تو صحافیوں میں اتنی تن آسانی آ گئی ہے کہ بہت سے لوگ گوگل ترجمے پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گوگل ترجمے پر نظرثانی کے بغیر ہی جوں کا توں دے دیا جاتا ہے۔ اس سے کبھی کبھار بڑی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گوگل ناموں کا بھی ترجمہ کر دیتا ہے۔ جبھی تو پرشانت بھوشن بحر الکاہل بھوشن ہو جاتے ہیں۔ ہندی میں پرشانت مہاساگر کو اردو میں بحر الکاہل کہا جاتا ہے۔ اس لیے گوگل نے جو سمجھا وہ لکھ دیا۔ اسی طرح ’’ریکھا کی زندگی میں بگ بی کی اہمیت‘‘ کو گوگل نے یوں کر دیا ’’لکیر کی زندگی میں بڑی بی کی اہمیت‘‘۔ اب گوگل کو کیا معلوم کہ بگ بی امیتابھ بچن کو کہتے ہیں۔ پچھلے دنوں سرجیکل اسٹرائک موضوع بحث بنی رہی۔ گوگل نے اس کا بھی ترجمہ کر دیا اور جو ترجمہ کیا اسے سن کر آپ کو یقیناً ہنسی آجائے گی۔ اس نے سرجیکل اسٹرائک کا ترجمہ ’’جراحی ہڑتال‘‘ کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کلکتہ کے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں اسی طرح چھپا بھی ہے۔ گوگل ترجمہ میں تذکیر و تانیث کی بھی فاش غلطیاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہندی کا ایک لفظ آندولن ہے جس کا اردو ترجمہ ہوا تحریک۔ آندولن مذکر ہے اور تحریک مونث لیکن جب گوگل نے اس کا ترجمہ کیا تو اس نے آندولن کو تو تحریک کر دیا لیکن مذکر کو مونث نہیں بنا سکا۔ جس کی وجہ سے جملہ یوں ہوا ’’تحریک ابھی تک چل رہا ہے‘‘۔ اسی طرح گوگل ترجمے کے طفیل میں جنگ چل رہا ہے بھی لکھا جا رہا ہے۔ یہ تو چند مثالیں تھیں ورنہ اس قسم کی زبان آج کل اخباروں میں دھڑلے سے استعمال ہو رہی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے بعض ایڈیٹر حضرات کی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں ہے۔
سوشل میڈیا میں تو دھڑلے سے زبان کی عصمت دری ہو رہی ہے۔ شکیل جمالی کا ایک شعر یاد آگیا   ؎
غزل عصمت چھپاتی پھر رہی ہے
کئی شاعر ہیں بے چاری کے پیچھے 
اردو اساتذہ:
جب زبان زوال پذیر ہوتی ہے تو ہر سطح پر ہوتی ہے۔ بعض اردو اساتذہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ بعض اوقات تو ان سے بھی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک پروفیسر صاحب صحت کے موضوع پر اپنی تقریر میں ’’حفظانِ صحت ‘‘کو بار بار ’’حفظانو صحت ‘‘بول رہے تھے یعنی نون پر پیش لگا کر۔ ’’آغاز شروع ہونا‘‘ تو اب عام ہو گیا ہے۔ کم پڑھے لکھے لوگ ایسا لکھتے ہی ہیں تعلیم یافتہ افراد بھی بعض اوقات اسی طرح گفتگو کرتے ہیں۔ اردو کے بعض اساتذہ بھی آغاز شروع ہونا بول جاتے ہیں۔ چلیے یہ تو دیکھ لیا کہ آغاز شروع ہو گیا ہے اب یہ دیکھنا رہ گیا ہے کہ اختتام کب ختم ہوگا۔ ایک پروفیسر صاحب اپنی تقریر میں بار بار ’’اُس کے بعدہُ‘‘ استعمال کیے جا رہے تھے۔ حالانکہ جب بعد ہُ کہہ دیا تو ’’اُس کے‘‘ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جامعہ ملیہ میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں تقریر کرتے ہوئے ایک پروفیسر صاحب نے کیا خوبصورت جملہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس کتاب میں جو مثبتانہ باتیں ہیں‘‘ انہوں نے مثبت سے مثبتانہ بنایا۔ ہمارے برابر میں بیٹھے ایک دوسرے پروفیسر صاحب ہماری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے تو ہم نے ان سے کہا کہ ’’ان کی مثبتانہ باتوں کو آپ منفیانہ مت لیجیے‘‘۔ 
اردو کے ایک معروف کالم نگار جو خیر سے خود کو دانشور بھی سمجھتے ہیں، ایک سمینار میں مقالہ پڑھتے پڑھتے خوب دلچسپ غلطی کر بیٹھے۔ انھوں نے کچھ شخصیات کے نام لیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میدان میں جن لوگوں کی خدمات ہیں، ان کے نام نوش فرمائیں‘‘۔ شائد انھوں نے گوش فرمائیں کہا ہو، جو میں نے نوش فرمائیں سن لیا۔ خاکسار نے ان سمیت کئی اردو قلم کاروں کو ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ بولتے ہوئے سنا ہے۔ ہندی والے جس طرح اردو زبان کے بعض مشکل الفاظ کو آسان بنانے کے چکر میں ان کا تیا پانچہ کر دیتے ہیں۔اسی طرح ہم بھی کرنے لگتے ہیں۔ ایک لفظ ’’حواس باختہ ‘‘ہے۔باختہ کا مطلب ہے ہارا ہوا۔ حواس باختہ کا مطلب ہوا ہوش و حواس ہار جانے والا یا کھو دینے والا۔ ہندی والوں نے پہلے اسے ’’حواس فاختہ ‘‘کیا اور اس کے بعد ’’ہوش فاختہ ‘‘کر دیا۔ گویا خلیل خاں کی فاختہ کی مانند ہوش اُڑ گئے۔ اگر ہندی والے حواس باختہ ہونے کو ’’ہوش فاختہ ہونا‘‘ لکھیں تو قابل معافی ہے لیکن اگر اردو والے بھی حواس فاختہ کہیں تو معافی کے قابل نہیں۔
اس مضمون میں جن اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ محض چند مثالیں ہیں جسے مشکل زبان میں نمونہ مشتِ از خروارے کہیں گے۔ ورنہ اگر اس قسم کی اغلاط کی فہرست سازی کی جائے تو وہ طولِ شبِ ہجراں سے بھی طویل ہوگی۔ اگر کوئی شخص دہلی کے صرف پانچ بڑے روزنامہ اخباروں کا ایک ماہ تک بالاستیعاب مطالعہ کرکے غلطیوں کی نشاندہی کر دے اور سمیناروں کے سیزن میں ادیبوں اور صحافیوں کے ایک درجن سمیناروں کی تمام نشستوں میں شرکت کر لے تو ’’اغلاط نامہ‘‘ نام کا ایک کتابچہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی زبان کی اپنی گرامر ہوتی ہے اور دُرست زبان لکھنے کا قاعدہ ہوتا ہے۔ دُرست اردو لکھنے کا بھی قاعدہ موجود ہےمگر آج اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں پر بے قاعدگی مسلط ہو گئی ہے۔ آج غلط اردو لکھنے کے سلسلے میں جو آپا دھاپی ہے وہ بالکل کسی ایسے مصروف چوراہے جیسی ہے جہاں کی ریڈ لائٹ خراب ہو گئی ہو اور راہ گیر آگے نکل جانے کی جد و جہد میں ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے بہ عجلت تمام دائیں بائیں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
 نوٹ :اس مضمون کا مقصد کسی کی تحقیر و تنقیص نہیں بلکہ دُرست زبان کے تئیں حساسیت پیدا کرنا ہے۔ (سہیل انجم)