شاعر حسنؔ کاظمی کا ایک شعر ہے ؎
سب میرے چاہنے والے ہیں، میرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
یہ شعر اس بات کی بخوبی عکاسی کرتا ہے کہ اردو کو لیکر ملک میں کیسے حالات ہیں۔ یوں تو ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اردو بولتے، لکھتے اور سنتے ضرور ہوں گے لیکن وہ زبان جو آپ کے بولنے اور لکھنے کی خوبصورتی کو بڑھا دیتی ہے اسے اب آہستہ آہستہ پستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یوں تو آج بھی کئی سیشن اور ضلع عدالتیں اردو میں سمن جاری کرتی ہی۔ ان عدالتی کارروائیوں میں اردو کا خاصا استعمال ہوتا ہے لیکن صرف اتنے بھر سے تو اردو کا بھلا نہیں ہی ہونے والا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اردو کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر عوام اسکی رسم الخط یا اس سکرپٹ سے بے بہرہ ہیں۔ ظاہر ہے جب لوگ اسکی سکرپٹ سے نا بلد ہیں تو وہ اسے پڑھنے اور لکھنے میں آسانی کیسے محسوس کرسکتے! البتہ، یہ اردو زبان کی شیرینی ہی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے، بقول شاعر؎
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
کسی بھی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے ضروری ہے کہ اس زبان میں خوب لٹریچر شائع ہو اور عوام اسے خوب پڑھیں۔ رسائل و اخبارات پاپولر لٹریچر کا اہم حصہ ہیں۔ شاید آپ کو نہ پتہ ہو لیکن بھارت کے اخبارات کے رجسٹرار آفس (RNI) کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ ’پریس ان انڈیا 2014-15‘کے مطابق پورے ملک میں شائع ہونے والے اردو روزناموں کی کل تعداد1,121 (ایک ہزار ایک سو اکیس) ہے جو قابل قبول زبان انگریزی (790) سے زیادہ ہے۔ اتنا ہی نہیں آر۔این۔آئی۔ کی اس رپورٹ کے مطابق اردو کے اخبار، تعداد میں لسانی بنیاد پر صرف ہندی (12,516) اور انگریزی (2,219) سے پیچھے ہیں۔ اردو زبان میں شائع ہونے والے کل اخبارات کی تعداد 1,661(ایک ہزار چھ سو اکسٹھ) ہے جو دوسرے ہندوستانی زبانوں کے مقابلے بہت آگے ہے، لیکن یہ صرف اعداد و شمار ہیں۔ اصل میں اردو کے لئے حالات بد سے بدتر ہیں۔ ملک کی دارالحکومت، دہلی، سے اردو کے کل241 اخبار شائع ہوتے ہیں، تو وہیں ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست، اتر پردیش سے کل 786 اردو اخبار شائع ہوتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں کل 345 اخبار شائع ہوتے ہیں جس میں سے 108اردو کے اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ یہی نہیں اردو کا دبدبہ ملک کے چار بڑے شہروں میں بھی ہے جہاں سے کل 278 اخبار شائع ہوتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار ہیں۔
آئین کی آٹھوے شڈیول کی کل 22 درج فہرست زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ آندھرا پردیش اور بہار دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملا ہوا ہے۔ اتر پردیش میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے۔ وہاں سے اچھی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن حال ہی میں ریاست میں آر۔ ٹی۔ آئی۔ (RTI)کے دس سال پورے ہونے پر حکومت کی طرف سے کی گئی تبدیلی کے تحت معلومات مانگنے کی زبان صرف ہندی اور انگریزی کر دی گئی ہے۔ اردو میں آر۔ ٹی۔ آئی۔ کی درخواست قبول نہ کی جائے گی۔ کہنے کو حکومتیں اردو کے فروغ کے لئے اپنے اشتہارات کے دستورِ عمل میں بھی اس کو خاصی عزت بخش رہی ہیں لیکن یہ اخبارات کے مالکان کے لئے صرف کمائی کا ذریعہ بھر ہیں۔ یہ تو رہی اخبارات کی بات، اگر ہم اردو اساتذہ کی تقرری اور ان کے پڑھانے کا حق دیکھیں تو یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ اردو کے نام پر مقرر ہونے والے استاد اردو پڑھا ہی نہیں پاتے۔ جی ہاں! پڑھا ہی نہیں پاتے سے سیدھا مطلب یہ کہ مدرسوں کو چھوڑ دیں تو کچھ ہی اچھے سکولوں میں اردو کی درس و تدریس کا معقول انتظام ہے۔
ہندوستانی ادب میں پریم چند اردو کی روایت اور سنسکار لے کر ہندی ادب داخل ہوئے، اور ہندی کے عظیم مصنف بنے۔ لیکن اب شاید ہی کوئی ہندی کا مصنف اردو کو معاشرہ کے سامنے لانے کی ہمت رکھتا ہو۔ اس کے دو وجوہات ہیں، پہلا یہ کہ وہ اردو جانتا نہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنے فرقہ سے اوپر اٹھ کر سوچ ہی نہیں پا رہا ہے۔ دوسری بات لوگوں کو کڑوی ضرور لگ سکتی ہے، لیکن یہ سچ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو سہی سے ہندی یا دوسری بھارتی زبانیں نہ آتی ہوں تب بھی وہ چاہتے ہیں کہ ایک مسلم کو اردو ضرور آئے۔ تاہم ہندی اور اردو دونوں کسی مخصوص فرقہ کی زبان نہیں ہے لیکن اب لوگ یہی سوچتے ہیں کہ وہ ہندو مذہب سے ہیں اس لئے انہیں اردو سیکھنے یا جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ اردو شاعری ہو یا نثرنگاری، ظرافت ہویا خطابت، تنقید ہویا تحقیق، ڈرامہ ہویا رِپورتاژ—ہرمحاذ پر غیر مسلم دانشوروں کی خدمات اردو زبان و ادب کو حاصل رہی ہیں۔ حصول آزادی میں بھی اردو نے ایک اہم رول اداکیا۔ آزادی سے قبل منشی دیا نارائین نگمؔ، منشی نولؔ کشور، پنڈت دیا شنکر نسیمؔ، پنڈت برج نارائین چکبستؔ، پریم چند، رام پرساد بسملؔ، مہاراجہ کشن چندؔ، تلوک چند محرومؔ کے ساتھ ساتھ ہزاروں غیر مسلم دانشوروں نے اردو کے چمن کی آبیاری میں اپنا خون دل صرف کیا۔ اور آزادی کے بعد بھی رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری، کنور مہندرسنگھ بیدی سحرؔ، راجندر سنگھ بیدیؔ، گوپی چند نارنگؔ، جوگیندر پال، ہر چرن چاولہ، سریندر پرکاش، کرشن چندر، بلراج میزا، رامانند ساگرؔ،بلراج کومل، پنڈت برج نارائن دتاتریہ کیفیؔ، آنند موہن زتشی گلزارؔ، خارؔ دہلوی، گوپی ناتھ امنؔ، دیوند راسرؔ، کنورسین، امرتا پریتم، بلونت سنگھ، گیان چند جین، کالی داس گپتا رضاؔ، ٹھاکر پونچھی، گلشن نندہ، گیان سنگھ شاطرؔ، شرون کمار ورماؔ، دت بھارتی، خوشتر گرامی، علامہ سحرؔ عشق آبادی، ڈاکٹر اوم پر کاش زارؔ علامی، بشیشور پرشاد منورؔ، لال چند پرارتھیؔ، بھگوان داس شعلہؔ، امر چند قیس جالندھریؔ، پنڈت لبھورام جوشؔ ملسیانی، پنڈت بال مکند عرشؔ ملسیانی، رنبیر سنگھ، نوین چاولہ، فکر تونسویؔ، رام کرشن مضطرؔ، جگن ناتھ آزادؔ، ساحرؔ ہوشیار پوری، رشیؔ پٹیالوی، ستیہ نند شاکرؔ، کرشنا کماری شبنمؔ، ایس۔آر۔ رتن، کاہن سنگھ جمالؔ اور سریش چند شوقؔ وغیرہ ایسے نام ہیں جو آفتاب و مہتاب بن کر اردو کے افق پر جگمگائے اور ان کی روشنی سے جہان اردو منّو رو تابناک ہوا۔
یہ تو عام انسان کی زندگی کی کہانی ہے جو اردو کو کسی فرقے اور مذہب خاص سے جوڑ کر دیکھتا ہے لیکن حکومتیں تو سب کی ہوتی ہیں نہ؟ اور جب وہی اردو کے ساتھؤ سوتیلا سلوک کرے تو؟ گزشتہ سال نومبر میں مرکزی انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کے تحت قومی اردو زبان کی ترقی کونسل کی طرف سے کئے گئے 18 ویں قومی اردو کتاب میلے کے انعقاد میں اسٹال خالی نظر آئے۔ نو روزہ اس پروگرام میں لوگ آئے ہی نہیں یا اردو ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائی یہ تحقیق کا موضوع بن سکتا ہے۔ ویسے لوگوں کی تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن کیا کسی ایسے ریاست کا اسٹال خالی ہو سکتا تھا جہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان سمجھا جاتا ہے؟ اس پروگرام میں اتر پردیش کے اسٹال میں کتابیں تھی ہی نہیں۔ میلے میں آنے والے پبلیشر انتظامیہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آس پاس کے لوگوں کو ہی اس تنظیم کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ یہ تو گزشتہ سال کے پروگرام کی بات ہے۔ اس سال جنوری میں منعقد عالمی کتاب میلے میں پورے ملک کے 14 اردو اکادمیوں میں سے صرف 2، بالترتیب دہلی اور مغربی بنگال کی اکادمیوں نے حصہ لیا۔ یوں تو اردو اکیڈمیز حکومتوں کے لئے ان کا سیاسی تیر لگانے کے لئے اچھا راستہ ہوتی ہیں لیکن وہ اس راستے کو بھی درست نہیں کرنا چاہتے۔ عالمی کتاب میلے میں بھی اتر پردیش اور بہار دونوں ریاست غائب رہے جہاں کی وہ سرکاری زبان ہے۔
مجموعی طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جس اردو کے نام پر سیاسی جماعتیں سیاسی چال چلتی ہیں انہیں اس کا ذرا بھی علم نہیں ہے۔ حال ہی میں ایک خبر آئی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان—جو انسانی وسائل کی وزارت کے ماتحت کام کرتا ہے— کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ اردو لکھنے والوں کو یہ بات تقریباً ثابت کرنی ہوگی کہ ان کی کتاب حکومت کے خلاف نہیں ہے۔ واضح ہو کہ ادیبوں کی کتابوں پر ملنے والی گرانٹ ان ایڈ پر جو فارم بھروایا جاتا ہے ،اس میں ایک نیا فارم شامل کردیا گیا ہے اور اس فارم میں یہ صاف لکھا گیا ہے کہ کونسل کی جانب سے شائع ہونے والے مواد میں حکومت کے خلاف یا حکومت کی کسی بھی پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اردو ادب کی کسی بھی کتاب پر تبھی کو نسل مالی تعاون دے گی جب اس میں ایک بھی جملہ یا کوئی بھی مواد حکومت کے خلاف نہیں ہوگا۔سوال یہ ہے کہ یہ شک صرف اردو کے ہی مصنفین پر کیوں؟ کیا اور زبانوں میں مصنف نہیں ہے یا پھر جس اردو زبان میں فوج اور کئی بار لیڈر بھی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں‘‘ گاتے ہیں، اس کی دھن پر ’بیٹنگ دی ریٹریٹ‘ پر مکمل راج پتھ جھومتا ہے، وہی آپ کی نگاہ میں ’’راجدروہی‘‘ کیوں ہو رہا ہے؟ ایسی خبریں صرف اردو ہی نہیں بلکہ آنے والے وقت میں دیگر زبانوں کے مصنفین کے لئے بھی خطرہ ہے۔ بڑے مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ حکم اسی کونسل نے جاری کیا ہے جس پر اردو ترویج و ترقی کا زمہ ہے۔
کوئی مصنف یہ کیوں چاہے گا کہ اس کے لکھے پر ملک میں کسی بھی قسم کی کشیدگی پیدا ہو اور اگر ہو بھی تو آخر سارا الزام صرف اردو پر ہی کیوں؟ بھلے ہی حکومت مبینہ طور پر قوم پرست ہو۔ سنسکرت کی حامی ہو لیکن کسی دوسری زبان کو اس طرح شک کی نگاہ سے دیکھنا چھوٹی ذہنیت کی علامت ہے۔ اس طرح کے فرمان جاری ہونے سے ایک زبان، اس کو پڑھنے اور لکھنے والوں پر سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے ہیں۔ کبھی ’جشن غالب‘ کے موقع پر ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎
آزادیٔ کامل کا اعلان ہوا جس دن
معتوب زباں ٹھہری غدار زباں ٹھہری
تب سے اب تک نہ جانے جمنا کا کتنا پانی بہ چکا لیکن اردو کے تئیں حکمرانوں کی نظریہ میں زرہ برابر بھی تبدیلی نہ آئی—ان کی نظر میں یہ زبان تب بھی ’غدار‘ تھی اور آج بھی ’دیش دروہی‘ ہے۔ 14؍مئی، 2014ء کے بعد تو حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں۔ بہتر ہو کہ ہمارا رخ اردو کے لئے صرف کسی فرقہ وارانہ زبان تک محدود نہ ہو۔ زبانوں کے خلاف اور حمایت میں حکومتوں کے فرمان آتے جاتے ہیں پھر بھی انہیں توجہ میں لایا جانا ضروری ہے۔ اردو سیکھئے، سیکھ نہ پائیے تو کم از کم اس کو برا بھلا مت کہیئے۔آخر میں اقبال اشہرؔ کی نظم ’اردو‘ کا ایک بند ہے ؎
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نی بھی خشیوں کا زمانا
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
ای میل[email protected]
موبائل 9711795373