متحرک، فعال اور نمایاں شعبوں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ علمی، ادبی اور سماجی طور پر نہ صرف سرگرم ہوتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً خموشی کے ساتھ ایسے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں کہ لوگ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتے ہیں۔ ہندوستا ن کی یونیورسٹیوں میں قائم چند ایک اردو کے شعبے اسی صف میں شامل ہیں ۔ مولانا آزاد اُردو یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، بمبئی یونیورسٹی اور پٹنہ یونیورسٹی کے نام اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں ۔ اب جب کہ بہار یونیورسٹی کا ترجمان ’’اردو جریدہ‘‘ سے مترشح ہوتا ہے کہ اس صف میں شعبۂ اردو، بہار یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ ، شعبہ مختلف قسم کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا ہے جس کی ایک کڑی’’ اردو جریدہ‘‘ کی اشاعت ہے ۔
’’اردو جریدہ ‘‘ بہار یونیورسٹی کا ترجمان بن کر پہلے ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آیا تھا، لیکن کچھ تکنیکی اور ادارتی وجوہات کی بنا پراس کا دوسرا شمارہ ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا تھا ۔اب پروفیسر حامد علی خان کی سرکردگی میں اس کی اشاعت تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کا ارادہ کیا گیاہے ۔انہوں نے زیر نظر شمارے کے اداریہ میں اپنے اس ارداے کو جنون کا نام دیتے ہوئے لکھا ہے ۔۔۔۔۔
’’ اب جنون کے طور پر اس ’’اردو جریدہ ‘‘ کو جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ جنون اچانک بھی نہیں ہوا بلکہ اس کا رشتہ میری پہلی کوشش ’’مظفر پور : علمی،ادبی اور ثقافتی مرکزـ‘‘مطبوعہ ۱۹۸۸ سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ماضی کے تابندہ اوراق کو کبھی قصۂ پارینہ نہیں سمجھا میں نے۔ میں نے ان سے ہی نئی راہوں کو تلاش کرنے کی روشنی پائی اور یہی میری قوت و توانائی ہے جو مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔‘‘
زیر مطالعہ شمارہ تین حصوں میں منقسم ہے : پہلا حصہ ’’گوشۂ مولانا آزاد ‘‘ ہے جس میں پروفیسر نجم الہدی ، پروفیسر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر منظر اعجاز، ڈاکٹر حامد علی خاں،ڈاکٹر ممتاز احمد خاں جیسے جید اہل قلم کے مضامین مولانا آزاد کی عبقری شخصیت اور ان کی متنوع ادبی و علمی خدمات سے ہمیں روشناس کرا رہے ہیں ۔ اس گوشے کا ہر مضمون نہ صرف خود میں مکمل ہے بلکہ اپنے عنوان سے بھی پورا پور اانصاف کرتا ہے۔دوسرا حصہ مختلف تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں ہندوستان کی مختلف جامعات کے اردو اساتذہ، ریسرچ اسکالرزاور طلبہ نے تحقیق و تنقید کے گل بوٹے بکھیرے ہیں ،بعض مضامین مثلاً نواب مظفر جنگ محمد رضا خاں، ذکی ا نور کے افسانے، رسالہ معاصر کی امتیازی خصوصیات، کلام حیدری، میرؔ، اردو گیتوں میں قومی یکجہتی اور غضنفر کی خاکہ نگاری وغیرہ موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے ہمیں متاثر کرتے ہیں اور نئی معلومات سے بہرہ ور بھی کرتے ہیں ۔ تیسرا حصہ شعبے کی سرگرمیوں اورشعری تخلیقات پر مبنی ہے، یہ حصہ ا گرچہ کمزور ہے مگر جریدے کو تنوع اور رنگا رنگی بخشتا ہے ۔ چند رنگین تصویریں بھی اسے دیدہ زیب بناتے ہیں ۔مختصر اًیہ کہ ’’اردو جریدہ‘‘ صوری اور معنوی طور اردو کے ہم عصر جرائد میں ایک امتیازی شناخت رکھتا ہے۔یہ نہ صرف عام قارئین کے لئے مفید ہے بلکہ اساتذہ، طلبہ اور با لخصوص بہار یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کو آگے اور آگے بڑھنے کے لئے مہمیز دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ع
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہوطے
رابطہ :سینئر ریسرچ فیلو،شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی،بہار
����