کوئی تحریک اپنے فروغ کے لئے جس گرم لہوکی مُتلاشی ہوتی ہے اس کی بہم رسانی کے لئے لفظ اور زبان کا استعمال سب سے زیادہ کار آمد ہوتا ہے۔ لفظ اور زبان کے ذریعے سے ہی تحریک کا پیغام وابستگان تحریک تک پہنچتا ہے اور پھر ان کے احساسات وجذبات کو متحرک کرنے میں مُمِدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ادب کا بنیادی وسیلہ بھی لفظ ہی ہے۔
لفظ دراصل انسانی فعل اور مادی اشیاء کا لسانی ترجمہ ہے اور زندگی کے مفہوم میں معنویت پیدا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایمرسنEmerson نے لفظ اور فعل دونوں کو انسانی قوت کے دو اہم ترین مظاہر قرار دیا ہے۔
ادب کا بُنیادی تعلق معاشرے سے جُڑا ہوتا ہے اور تحریک چونکہ کسی نہ کسی رنگ میں معاشرے کو متاثر کرنے کا رحجان بھی رکھتی ہے۔ اسلئے ایک مخصوص دائرہ کار میں رہتے ہوئے تحریک ادب سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عہد اور ہر دور میں"ادب" کا لفظ استحسان کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ چھاپ خانہ کی ایجاد نے تو لفظ کو لاتعداد لوگوں تک پہنچانے کا کام اور بھی آسان بنا دیا۔ اسطرح ادب قلم روِ تحریر کا سب سے مقبول ترین وسیلہ بن گیا۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب کیا ہے؟
بہ ظاہر یہ لفظ یا یہ سوال سادہ اور آسان نظر آتا ہے لیکن اس کا کوئی ایسا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے جس پر اہل رائے متفق ہوں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جتنے اہل ادب ہیں اتنے ہی لفظ ہائے نظریے موجود ہیں اور جتنے نظرئیے ہیں اتنی ہی ادب کی تعریفیں کی گئی ہیں۔
دراصل"ادب" عربی زبان کا لفظ ہے۔ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ الفاظ کے معنوں میں تغیر پیدا ہوتا ہے۔ قدیم عربی میں یہ لفظ دعوت طعام کا مُترادف تھا پھر اسکے گِرد اخلاقیات کا روشن دائرہ مرتب ہونا شروع ہوا۔ فروغِ اسلام کے ابتدائی عہد میں "ادب" کو تعلیم کے معنی میں استعمال کیا گیا۔
عجمی سوچ وفکر کے مطابق ادب سے مُرادوہ علوم عربّیہ ہیں جن سے اس زبان پر پورا عبور حاصل ہو۔ اکثر علماء اور مُفکرین نے ادب کے اسی معنی کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس تصریح سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لکھی ہوئی ہر چیز، وہ معیاری ہو یا غیر معیاری، ادب کے زمرے میں آتی ہے۔
چنانچہ سخاوی نے لکھا ہے۔ "وہ تمام معلومات جو کتابوں اور دوسرے نسخہ جات سے حاصل ہوتی ہیں ادب ہے۔" میتھو آرنلڈ نے معلومات کے بجائے علم کا لفظ استعمال کیا ہے اور لکھا کہ وہ تمام علوم جو کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں ادب ہے۔
تحریک ادب کو خواب غفلت سے جگانے کا کام کرتی ہے۔ ہرتحریک کے آئینے میں ادب کارفرما نظر آتا ہے۔ گویا ادب اور تحریک دو لازم ملزوم چیزیں ہیں۔ کوئی بھی تحریک ہو ادب اسے فرش سے عرش تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
ادب تو زندگی کا جوہر ہے اور اس کی تخلیق میں نہ صرف ادیب کا ذاتی تجربہ ہی شامل ہوتا ہے بلکہ اسکے ماضی کا سارا سرمایہ، مستقبل کے تصورات، سماجی شعور، معاشرتی رویہ، مذہبی نظریات، سیاسی عقائد اور عمرانی تصورات، حتیٰ کہ بعض اوقات ادیب کا سماجی مرتبہ، اقتصادی حالت، ادبی شہرت اور قاری ومرّبی کے تقاضے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلئے ادب کا ایک اساسی تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ ادیب کے ذاتی تصورات، تاثرات اور تعصبات اس کی تخلیق کی کارفرمائی سے یوں جُدا نہ ہوں کہ پڑھنے والے کو پڑھنے کے دوران احساس کمتری میں مُبتلا کردیں بلکہ یہ سب ادب کے خمیر میں یوں شامل ہوں کہ قاری ان کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کا اثر لاشعوری طور پر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے اور اس کے سُننے یا پڑھنے سے مسّرت، درد یا غم کی کوئی کیفیت یوں محسوس ہو کہ قاری بے اختیار یہ کہہ بیٹھے کہ "یہ میرے ہی دل کی آواز ہے"۔
ادب قوموں، ملکوں اور عوام پر اپنا اثر ضرور مرتب کرتا ہے اور بعض اوقات ان میں انقلابی تبدیلیاں بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ اثربالعموم فوری اور براہِ راست نہیں ہوتا۔ ادب کا اثر اتنا وسیع اور اس کا طریقہ عمل اتنا بالواسطہ ہے کہ ان کے اثرات کو اعدادوشمار سے جمع کرنا ممکن نہیں۔
پس کوئی بھی ادبی تحریک اصل میں ادب کے جمود کو توڑنے اور اس کی قدامت کو زائل کرکے اس میں تنوع اور نیرنگی پیدا کرنے کا عمل ہے۔ادب میں تحریک کا دوسرا مفہوم اس فیضان سے تعبیر ہوتا ہے جو ادیب کو ادب تخلیق کرنے پر آمادہ کرتا یا اُکساتا ہے۔
مجتبیٰ حسین نے تحریک اور ادب کو لازم وملزوم قرار دیتے ہوئے اقبالؔ کا یہ مصرع پیش کیا ہے۔
"مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن"
جس طرح مُرغ چمن کے نغمے نے شاعر کے جذبات برا نگیختہ کئے ہیں اور شاعر کو متحرک کیا ہے عین اسی طرح تخلیق کار کو کوئی نہ کوئی تحریک ملتی ہے، جس سے وہ اپنے جذبات اور خیالات کو الفاظ اور تحریر کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ گویا اس انفرادی عمل سے ایک وسیع ترین تحریک کو دُور تک پھیلاتے تخلیق کاروں کا کارواں رواں دواں ہوتا ہے۔ اسی تحریک نے سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہوتا ہے جسکی آئینہ داری ادب کرتا ہے۔ چنانچہ ایک سیاسی یا نیم سیاسی تحریک زیادہ سے زیادہ فرد کی زندگی کی سماجی جہت کو متحرک کرتی ہے جبکہ ادبی تحریک اس کی ساری شخصیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور سوچ وفکر کا یہ کارواں ایک پیش یا افتادہ ڈگر پر چلنے سے انکار کرتا ہے۔ ادیب کا ذہن سکون یا ٹھہراو کی اس حالت سے چونکہ مطمئن نہیں ہوتا اسلئے وہ ایک نئے سوال کو جنم دیتا ہے۔نتیجتاً ایک فکری تصادم عمل میں آتا ہے جو اس عہد کے زیرک ادیبوں کو اس سوال پر غور کرنے اور اپنا ردِعمل ظاہر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ نئے علوم اور نئی معلومات کی روشنی میں ادب کا وجود عمل میں آتا ہے۔
لہٰذاادب کا یہ سماجی عمل جب تک جاری رہے گا اس پر جمود کی کیفیت طاری نہیں ہوگی اور یہ بتدریج ادبی تحریکوں میں ڈھلتا اور یوں ارتقا ء پذیر ہوتا رہتا ہے۔ اگر ادیب فکری تصادم پیدا کرنے کے بجائے اعادے اور تکرار کی میکانکی فضا میں گُم ہو جائے تو ادب کی ترقی کی رفتار رُک جائے گی اور ادب مشینی یکسانیت کی زد میں آجائے گا تاآں کہ اس کے ابطان سے ایک نئی تحریک جنم لے کر اس کے مزاج کو یکسر بدلنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔
موبائل نمبر؛9469447331
کنٹریکچوَل لیکچرار گورئنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری اسکول چندوسہ بارہمولہ