ادب ،ادیب اور معاشرے کے متعلقات پر اظہار خیال کرنے سے پیش تریہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی تعریف کی جائے۔ہر ذی علم ، ادب کے طالب علم اور ادبی ذوق رکھنے والے انسان کے ذہن میں یہ سوال بارہا جنم لیتا ہے کہ ادب کیا ہے یا ادب کسے کہتے ہیں لیکن ادب کی تعریف کسی ایک جملے میں کرنا یاسموناآسان نہیں۔ادب کی مختلف اوقات میں مختلف ادباء ونقادوں نے اپنے عہد اور پیمانوں کے مطابق مختلف النوع تعریفیں کی ہیں۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے اور یوں زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔کوئی اس خیال کا حامل ہے کہ ادب محض ترجمانی ہی نہیں کرتا بلکہ زندگی کی تنقید بھی کرتا ہے اور اس کی تفسیر بھی۔مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ تحریر جس میں فن کو بروئے کار لاکر ادبی لوازمات کا بھرپور خیال رکھا گیا ہو،ادب ہے۔درجہ ذیل میں ہم چند ماہرین ادب کی ادب کی تعریف کے متعلق چند اقوال درج کیے جاتے ہیں:
سید عابد علی ادب کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’ وہ تمام تحریریں ادب کے دائرے میں داخل سمجھی جائیں گی جن کے مطالب کو ذوق سلیم معیاری تصور کرے گااور جن کا اسلوبِ نگارش صناعانہ اور فن کارانہ ہوگا کہ حسنِ صنعت یا فن کی صنعت لازم ہے۔‘‘(اصول انتقادِ ادبیات،ص:۲۹)
اطہر پرویز لکھتے ہیں:’’ اجمالی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں روزمرہ کے خیالات سے بہتر خیال اور روزمرہ کی زبان سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے۔ادب انسانی تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔‘‘ (ادب کا مطالعہ،ص:۳۲)
ڈاکٹرسید عابد حسین ادب کی تعریف میں رقمطراز ہیں:’’ادب شاعر یا ادیب کے ذہن میں سوئے ہوئے خیالات کا نام ہے جو زندگی کی چھیڑ سے جاگتے ہیں،زندگی کی آنچ میں تپتے ہیں اور زندگی کے سانچے میں ڈھل کر خود زندگی بن جاتے ہیں۔‘‘ ( ادب کا مطالعہ،ص:۳۵)
ڈاکٹر وزیر آغا ادب اور ادیب کا دائرہ عمل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ادب بنیادی طور پر ایک اخلاقی فعل ہے اور ادیب اخلاقیات کا بہت بڑا نمائندہ ۔‘‘ ( تعمیری ادبی تحریک از پروفیسر احمد سجاد،ص:۹۴)
بقولِ ڈاکٹرجمیل جالبی:’’یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ’’ ادب‘‘ کیا ہے؟اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی ‘‘کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا ؟اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جوا ب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہوگا،اس میںصرف وہ زاویہ ہوگا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہوجائے۔یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی کے اظہار کا نام ہے۔‘‘ (ادب کیا ہے؟ ماہنامہ’’ چشم ِبیدار‘‘ لاہور -مئی ۲۰۰۹ء)
ادب کوئی محدود یا مقید فن نہیں کہ جس میں صرف کسی مخصوص ہیئت یا کسی خاص نقطہ ٔ نظر کی حامل تحریریں ہی شامل کی جائیںبلکہ ہر وہ تحریر، خواہ اس کا تعلق کسی بھی ہیئت یا نظریے سے کیوں نہ ہو، جس میں ادبی لوازمات مثلاً فن کاری ،ندرت خیال ،حسن صنعت ،اعلیٰ زبان،تاثیر اور دیگر ادبی لوازمات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اد ب ہے۔مختصر یہ کہ ادب اپنے مافی الضمیرکو خوبصورت پیرایہ میں ادا کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے۔
جب انسان کے اندر کا جذبہ ،احساس یا فکر و خیال نہایت مؤثر طریقے سے مؤثر الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے اور یہی الفاظ جزبہ و فکر کی آمیزش کے ساتھ بہترین ترتیب و تنظیم پاتے ہیںاور پڑھنے یا سننے والا اس سے لطف اندوز ہوتا اور مسرت و بصیرت حاصل کرتا ہے تو یہی ادب کہلاتا ہے۔ محض خوبصورت الفاط کااستعمال ادب نہیں جب تک نہ ان سے لطافت ومسرت اور بصیرت نہ جھلکتی ہو۔ وہی تحریر ادب کہلائی جاسکتی ہے جو ہمارے شعور اور تجربوں میں اضافہ کرے کہ ان تجربات سے نامانوس ہونے کے باوجود بھی ہمیں یہ احساس دلائے کہ جیسے وہ ہمارے اپنے تجربے ہیں۔
جس تحریر میںزندگی ،شعور،ابدیت ودوام ہوگا اور جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد اور آفاقیت کی حامل ہو گی ،وہ ادب کہلائے گی۔ یہ خصوصیات جس تحریرمیں جتنی زیاہ پائی جائیں گی اسی اعتبار سے وہ اد ب عالیہ میں شمار کی جائے گی۔
ادب کے توسط سے ہی ہم دوسروں کے تجربوں سے مانوس ہوکر ان میں شریک ہوجاتے ہیں اور یوں ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکل آتے ہیں اور رفعت پاجاتے ہیں۔بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:’’ادب کی ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہوجاتے ہیں،اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہوجاتے ہیں۔‘‘(مضمون :ادب کیا ہے، ماہنامہ’’ چشمِ بیدار‘‘ لاہور -مئی ۲۰۰۹ء)
ادب اپنے اندر بے شمار موضوعات کو سما سکتا ہے اور سموئے ہوئے ہے کیونکہ ادب کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ فلسفہ،مذہب،سماج ،خیالات و احساسات،حسن و عشق، پندو نصائح،رزم و بزم اور خود انسان غرض ذات ،حیات و کائنات سے جڑی ہر چیز اس کا موضوع بن سکتی ہے ۔بقول اطہر پرویز :
’’انسان کی زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔محلوں سے بازاروں تک ،بازاروں سے دفتروں تک غرض زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔‘‘ (ادب کا مطالعہ،ص:۳۹)
اب اس مضمون کے دوسرے حصے کی طرف آیئے ۔وہ یہ کہ ادیب کس کو کہا جائے۔اس کو جو محض لفظوں کی بازی گری سے کام لے یا پھر وہ جو محض مواد کو ترجیح دے کر زبان و بیان کو ایک ثانوی چیز سمجھے۔اس کو کہا جائے جو ’ادب برائے ادب‘ کا مبہم نعرہ لگا کر ادب کواخلاقی حدوں سے آزاد کر دے یا پھر اس کو جو ’ادب برائے زندگی‘ کا ڈھنڈورا پیٹے لیکن جب حقیقت میں اس ادب کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں زندگی سے فرار اور شکست خوردگی کا احساس نظر آئے اور ادب کے عنوان کے تلے نعرہ بازی کی گئی ہو۔جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بعد تو ادب کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہر کس و ناکس اس میں داخل ہوتا جارہا ہے اور اپنے آپ کو ادیب کہلوانے پر تلا ہواہے۔وجودیت اورلامرکزیت کے فلسفوںنے ہر کسی کو ادیبوں کی صف میں لا کھڑا کردیا ہے۔ کوئی شخص اگر کوئی شعر کہے یا کوئی اور تحریر لکھے ،پھر اس شعر یا تحریر کا اد بی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو ناقد سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ آخر اس شعر یا تحریر کے مصنف کو کس نے کن بنیادوں پر ادیب گردانا ہے۔جب اس خود ساختہ ادیب سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا یہ کلام یا تحریرادب کے معیارات پر پورا نہیں اترتا یا اس میں نہ تو لفظ ہی اعلیٰ ہیں اور نہ ہی معنی کے اعتبار سے اس میں کوئی وزن پایا جاتا ہے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ تو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فلسفہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ادیب کس کو کہا جائے ۔ یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے تاہم ذیل میں ہم چند اشارات کیے دیتے ہیں۔
ادیب ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت اصطلاح ہے جس کے ابعاد وسیع بھی ہیںاور روشن بھی۔ادیب میں ایک فطری وصف موجود ہوتا ہے جو اسے لکھنے کی مہمیز اور تحریک دیتاہے۔وہ زندگی کی گہرائیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ادیب ہمارے ہی سماج کا ایک فرد ہوتا ہے ۔ اسے بھی انہی حالات و واقعات سے سابقہ ہوتا ہے جن سے سماج کے دوسرے افراد گزرتے ہیں ۔ وہ بھی زندگی کے سرد وگرم عام و خاص تجربات سے گزرتا ہے ۔ لیکن یہاں پر ذہن میں یہ سوال ضرور ابھر آتا ہے کہ پھر وہ کون سے پیمانے اورصفات ہیں جو ادیب کو ان اشخاص سے جن کا سابقہ انہی حالات ،واقعات اور مسائل سے ہوتا ہے ایک الگ شناخت اور حیثیت بخشتے اور اسے ادیبوں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔دراصل ادیب گہرے ادراک اور مشاہدہ کی جامع صلاحیت اور اس کے مؤثر اظہار پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔اس میں چیزوں کو پرکھنے اور ان کے درمیان فرق کرنے کی خدا داد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اس میں تجربات کو ایسے انداز میں ڈھالنے کا ہنر ہوتا ہے کہ وہ تجربہ ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقیت کا حامل ہوتا ہے ۔ ادیب کی سوچ معاشرے کے عموم سے ہٹ کر ہوتی ہے ۔معاشرہ ایک شے کو ایک مخصوص نظر سے دیکھتا ہے لیکن ادیب اسی شے کواپنے خاص زاویے سے دیکھ کر بھی اورکئی زاویوں سے دیکھتا ہے ۔ یہی کچھ ایسے ا وصاف اور پیمانے ہیں جو ایک ادیب کو معاشرے کے عام افراد سے ممیز کرتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:’’ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی ۔اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی اور خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔جتنا بڑا ادیب ہوگا اس کے تجربے کا تنوع ،اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہوگا۔‘‘ (مضمون :ادب کیا ہے، ماہنامہ’’ چشمِ بیدار‘‘ لاہور -مئی ۲۰۰۹ء)
بدقسمتی سے آج کل کچھ مخصوص نظریوں کے حاملین اپنے گروہ کے افراد کے علاوہ کسی دوسرے نظریے(مخالف نظریہ) کے قائلین کو ادیب تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔اگرچہ نظریاتی طور پر مخالف گروہ نے کتنے ہی شاندار فن پارے کیوں نہ تخلیق کیے ہوں۔ یہ ایک بہت بڑی ناانصافی ہے جو آج ادب کے دائرے میں رہ کر ادب کے ٹھیکے دار کر رہے ہیں ۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ بہت سے مصنفین کو اس لیے ادیب تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے مذہبی تصورات،اخلاقی اقداروغیرہ کواپنی نگارشات کا موضوع بنایا ہے لیکن ان تصورات کے حاملین سے ہم یہ سوال تو پوچھ سکتے ہیں کہ آخر انگریزی ادب میں پیورِٹن اور ملکہ الزبتھ کے عہد میں ادب کا عمومی موضوع کیا رہا ہے؟ آخر الکزینڈر پوپ کس وجہ سے انگریزی ادبیات میں ایک اہم مقام کا حامل ہے؟اس کے فن پاروں کا عمومی موضوع کیا تھا؟جان ملٹن کی طویل نظم ’’فردوس گمشدہ ‘‘ کے موضوع کا خمیر کہاں سے اٹھا ہے؟ اردو ادب کی بنیاد کن ادباء نے ڈالی تھی؟امیر خسرو،خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،مرزا مظہر جان جاناں،خواجہ میر درد،مومن خاں مومنؔ،مولاناحالیؔ،مولانا محمد حسین آزادؔ ،ڈپٹی نزیر احمد،علامہ شبلی نعمانی،مولانا ابوالکلام آزاد ،علامہ اقبال وغیرہ کی فکر کا خمیر کہاں سے اٹھا ہے؟ اردو کے عناصر خمسہ کون سی تہذیب اور تعلیم کے پروردہ تھے اور ان کی اصل پہچان کس وجہ سے ہے؟
اگر تہذیب و تمدن،اوہامات ورسومات ،حسن و عشق، مارکسیت،جنسیت،تانیثیت،جدیدیت،مابعد جدیدیت وغیرہ کے مضامین باندھنے والے ادیب کہلائے جاسکتے ہیں تو مذہب،اخلاقِ فاضلہ، تاریخ وغیرہ جیسے موضوعات کو ادبی لوازمات کا لحاظ رکھتے ہوئے سپردِ قرطاس کرنے والے کیوں ادیب نہیں کہلائے جاسکتے؟آلِ احمد سرور لکھتے ہیں:’’ یہ کہنا کہ مذہبی نظریہ ادب میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ،غلط ہوگا ،علاوہ اس کے کہ ماضی میں اس کے اثرات سارے ادب پر ملتے ہیں‘‘( تنقیدی نظریات از احتشام حسین ۲-ص۹۱-۹۲)
دراصل ادیب اسی کو کہیں گے جو ادبی لوازمات کا خیال رکھ کر احساسات و خیالات،اس کے ارد گررونما ہو رہے حالات و واقعات کو خوبصورت الفاظ میں خوبصورت پیرایئے اظہار عطا کرے۔ادیب کسی بھی فکر کا حامل ہو لیکن جب اس کے پاس اپنی فکر و نظر کوعوام تک پہنچانے کے لیے انتہائی مؤثر ترین الفاظ اور اظہار کا سلیقہ ہو،اس میںمشاہدہ کی قوت ہو، ادراک و شعور ہو اور اس ادراک و شعور کو اعلیٰ زبان و بیان کی قوتوں مثلاًصنائع بدائع، فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرنے کا ہنر ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے فکر و نظر کی بنیاد پر اسے ادیب ماننے سے منکرہو جائیں۔
اس سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کون سے ادیب کو کامیاب ادیب کہا جائے گا۔اس کو کہ جس کے فن پاروں میں شکستگی کا اظہار ،زندگی سے فرار،یاس ونومیدی ،خودی کی موت وغیرہ جیسے احساسات و خیالات ملتے ہوں یا اس کو کامیاب کہا جائے جس کی نگارشات میں عزم و حوصلہ،زندگی کے سردوگرم سے گزرنے کا ہنر ،صبر و ثبات،امید و رجا،نگاہِ بلند،سخنِ دلنواز اور جانِ پُرسوز پائی جاتی ہو۔جس کو اپنے ان احساسات و خیالات پے جن کو وہ ادب کے ذریعہ ہمارے سامنے لاتا ہے ،پورا ایقان حاصل ہواور اس کا ایقان اعتقاد کی صورت اختیار کرچکا ہو۔ بقول ڈاکٹراعجاز حسین:’’کامیاب ادیب کے لیے صرف قوت مشاہدہ ہی کافی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوت ایقان کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ جب تک اس کے محسوسات اعتقاد کی صورت نہ اختیارکریں گے۔نہ ان میں زور پیدا ہوگا اور نہ سننے والے اسے خاطر خواہ متاثر ہوں گے۔کسی انسان کی بات اسی وقت دوسروں کے جذبات برانگیختہ کرسکتی ہے۔
(بقیہ سنیچر کے شمارےمیں ملاحطہ فرمائیں)