توجہ طلب
محمداشرف بن سلام
اخلاق دنیا کے ہر ایک قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اخلاق اس مذہب کا ایک مشترکہ باب ہے ۔ شعور واخلاق کی صلاحیت نے ہی انسان کو ممتاز بنایا ہےاور اشرف المخلوقات کا درجہ دلایا ہے۔دنیا بھر میں انسانی معاشرے میں لوگ یکساں نہیں ہوتے۔ فرشتہ صفت انسان بھی ہوتے ہیں اور شیطان خصلت بھی۔ دنیا میںہراچھائی کے بالمقابل بُرائی اور ہربُرائی کے بالمقابل اچھائی بھی ہے۔چونکہ انسان ہمیشہ سے تغیر پذیر معاشرے کا حصہ رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میںکشمیر ی بھی اخلاقی پستی کا شکار ہے۔جس کی بڑی وجہ ہماری دین ِ انسانیت کی تعلیم سے دوری ہے جس کے نتیجے میںہم اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے اُس دور ِجہالت کی طرف لوٹ گئے ہیں ،جس میں ساری اخلاقی قدریں پامال ہورہی تھیں اور جس کا خاتمہ پیغمبر اسلامؐ نے کیا تھا ، دین ِاسلام نے بُرائیوں سے پاک معاشرے کے ساتھ ساتھ اخلاق انسانیت کا شعور پیدا کیا تھا،جوکہ آج نابود نظر آرہا ہے۔
معاشروں کا حقیقی تشخص اُن کے اخلاقی اقدار پر قائم ہوتا ہے۔اگر معاشرے میں اخلاق ہوگا تو انصاف بھی فراہم ہوگا اور ترقی بھی ہوگی، ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام عالم میں لوگوں پر جو مصیبتیں بھی آتی ہیں، اس کی ایک وجہ اخلاقی بُرا ئی ہےاور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کا زوال گمراہیوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔جب کوئی قوم عروج پر پہنچتی ہےتو وہ غرور و اَنّا میں مبتلا ہو کر بُرائیوں اور خرابیوں کا شکار ہوجاتی ہےاور پھر زوال پذیر ہوجاتی ہے، اس کی علامتیں آج دنیا بھر پائی جاتی ہیں۔ مختلف اقوام میں نوجوانوں نسل کے لئے بے راہ روی کی تمام راہیں ہموار کی گئی ہیں،جس سے نوجوان نسل اخلاقی برائیوں میں غرق ہوچکی ہے،جس کا اثر دوسرے قوموں کے نوجوان نسل پر پڑچکاہے۔
دورِ حاضر میں اگرہم اپنے معاشرے پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ ایسا کوئی گناہ ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں ہے۔ ہر کوئی مادیت پرستی کے لئے شیطانی چالیں چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ہمارے پڑوسی ہمارے بغل میں رہ کر غربت و افلاس سے نہ جانے کتنی صعوبتیں جھیلں، لیکن بحیثیت پڑوسی اس کی خیروعافیت معلوم کرناہم اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں اور اگر کوئی کسی کی مدد کر بھی جائےتو اُس کی عزت نفس کو مجروح کرکےکی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی جوان لڑکیاں غربت کے باعث اپنے باپ کے گھرگُھٹ گُھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں، کیوںکہ نکاح کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کسی غریب کی بیٹی کا گھر آسانی سے نہیں بستا۔ اب تو ہمارا حال یہ ہے کہ کل تک جو اغیار ہمارے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ہمارے قریب آرہےتھے۔ آج ہماری بد اخلاقیوں اورباہمی انتشارو تنائو کو دیکھ کر ہم سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔
بے شک انسانیت کا سرمایہ اخلاق ہے جوزمانہ قدیم سے موجود ہے ۔ اخلاق کی شکل میں ہی احساس ذمہ داری،دیانت داری، صلہ رحمی اور وفاداری کی بنیاد انسانی شخصیت میں رچی بسی ہے، اور اسی بنیاد پرانسان کے اندر اخلاق ہونا بھی لازم ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں لوگ یکساں نہیں ہوتے، انسان دوست بھی ہوتے ہیں اور شیطان خصلت بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔قابل فخرلوگ بھی ہوتے ہیں، خود پرست بھی۔ وادی کشمیر کی بات کریںتو یہاں کا ہرفرد فخراً کہا کرتا تھا کہ میں کشمیرکا رہنے والا ہوں، جہاں اخلاقی تربیت،تہذیب و تمدن ،بھائی چارہ، انسانیت کا جذبہ ،پاکیزہ اور صالح معاشرہ ہمیں اپنے اسلاف سے ملا ہے،لیکن آج نہ وہ اخلاق رہے نہ وہ تہذیب رہی ہے۔اب تویہاں ایسے المناک واقعات رونما ہو رہے ہیں، جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔جبکہ معاشرہ بھی ہمارا ہے اور اسے خراب کرنے والے بھی ہم ہی ہیں ۔
افسوس کہ ہم ابھی تک ان خرابیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ نہیں ہورہے ہیں اور اگر کوئی یہ کام کرنے بھی کوشش کریںتو اُس کے ساتھ تعاون بھی نہیں کرتے۔اگرچہ اس کام میں ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانا لازمی ہے۔جبکہ یہ کام کسی حد تک ہمارے علماء،دانشور، مقامی امام اور پیر صاحب بھی کرسکتے ہیں۔موجودہ دور میں اخلاقی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ زمانہ تیز رفتاری سے چل رہا ہے جس میں ہرایک انسان اپنی اولاد کا پائیدار مستقبل چاہتا ہے ،یہ ایک فطری خواہش ہے، دنیا کی اُلجھنوں کے باوجود والدین اس فکر سے کبھی غافل نہیں ہوسکتے۔ نوجوان نسل کو اپنی ماضی کی تہذیب سے آگاہ ر رکھنا ، افراد خانہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ والدین کے بعد استاد ہی طلاب کوہر بات سمجھاسکتے ہیں ۔ کسی بھی قوم کی کامیابی کا انحصارنوجوانوں کی شمولیت پرہوتا ہے ۔نوجوانوں میں جو شعور موجود ہے، اسکی بیداری بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دورِ حاضر میں انسانی جذبات و احساسات کا احترام، انسانی ضمیر کی تربیت اور فکر وخیال کے حوالہ سےا نسانیت کی اقدار حیات کو اُجاگر کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور سے ہماری دینی قیادت جو اُمت کا فکری و دینی مقتدا ہے، وہ اپنی دانشورانہ کاوش اور علمی تحقیقات میں انسانی فطرت، انسانی تعلقات اور انسانی ماحول کے تعلق سے اصولوں ،اخلاقی فکرمنظم طریقہ سے پیش کرکے نوجوان
نسل کی تربیت کریں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا انسانی معاشرتی کا تصور سامنے لائیں،جس کی بنیاد پیغمبر اسلام ؐ نے رکھی ہیں۔علماءحضرات اپنے صلاحیتوں اورحکمت و تدبر کے ساتھ انسانی معاشرہ کو اس حقیقت سے بھی روشناس کرائیں کہ اعلیٰ انسانی اخلاق واقدار کی حامل انسانی تہذیب ہی ایک ایسا گہوارہ ہے جس میں تمام افراد، قوموں اور گروہوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پوری آزادی ہےاوراگر سنجیدگی سے اس معاملے کو سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھا ئے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم دوبارہ اس اخلاقی سطح پہ پہنچ جائیں جو ہمیں اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملا تھا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا دیر سو یر ہر ذی نفس کو کرنا ہے۔ہمیں بھی بالآخراللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ اسلئے ہمیں اپنی کمزوریوں کے باوجود یہ حقیر کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولیٰ ہمیںاخلاقی اقدار پر مضبوطی سے کاربند رکھے اور پیغمبر اسلام ؐ کی سیرتِ طیبہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
( اُومپورہ بڈگام)