بلال احمد صوفی ، سرینگر
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی پہچان اس کے اخلاق سے ہوتی ہیں۔اخلاق کے بغیر انسان جانوروں سے بھی بدتر ہے۔اخلاق سے ہی انسان ہر میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اس لئے با اخلاق لوگ اکثر مسائل کو اچھے طریقے سے حل کرتے ہیں اور ہمیشہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ اخلاق وہ آلہ ہے جو ہمیشہ انسان کی روحانی حفاظت کرتا ہے ۔جس طرح نماز، روزہ، حج، اور زکواۃ دین کے ستون ہیں ،اسی طرح اخلاق، نرمی، انکساری،علم اور حلم ہر انسان کیلئے ضروری ہیں۔ ان اوصاف کے بغیر انسان کی پہچان ناقص ہیں۔ علم کا بنیادی مقصد بھی اخلاقی تربیت ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ ترقی کا زمانہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ اب زندگی کا نام بھاگ دوڑ ہے۔ البتہ اس دوڈ میں کہیں نہ کہیں اخلاقی پستی ضرور آگئی ہے۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں، میدانوں، وغیرہ نیز ہر جگہ اخلاقی گراوٹ نمایاں ہے۔ ہماری نوجوان زیادہ تر اس کے شکار ہیں۔ ایک تو کم سنی اور دوسری طرف موجودہ زمانے کی کشش نے ان کو اس دنیا میں پہنچا دیا ہے ،جہاں صرف گالی گلوچ، جھوٹ، دھوکہ دہی، سگریٹ نوشی، وغیرہ جیسے گھناؤنے کام عام سی بات ہے۔ اس اخلاقی پستی نے ہمارے سماج کو گناہوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔
ایسا اکثر کہا جاتا ہےکہ تعلیم یافتہ با ادب اور با اخلاق ہوتے ہیں ۔ تعلیم انہیں الفاظ کم، مگر تہذیب یافتہ بنانے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ البتہ آج اس کا اُلٹ دیکھا جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے تعلیم یافتہ لوگوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ وہ اس حد تک گرجاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے پے آمادہ ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج عیاں ہیں۔ گھر اور سماج تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ اصل میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی دروس بھی نصاب میں شامل ہونے چاہیے۔ Knowledge gathering کبھی بھی تعلیمی زمرے میں نہیں آتی ہے۔ Rote learning and mugging up کو بھی تعلیم نہیں کہا جاسکتا۔ انسان کو جو چیز انسان بنائے، وہ تعلیم کہلاتی ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ اخلاقیات پر زیادہ زور دیا جائے۔ گھر سے اسکولوں تک، ہر جگہ اخلاقی اقدار کی جانکاری فراہم کئی جائے۔ ان ممالک کی مثالیں پیش کی جائیں جو اخلاقی معیار پر کھری اتری ہے۔ جاپان اس کی واضح مثال ہے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ با اخلاق بننے کی کوشش کرے۔ اس میں زیادہ محنت نہیں لگتی اور البتہ اس کا پھل بہت ذائقہ دار ہے۔ تو آئیے ہم سب با اخلاق بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔