مقصود احمد ضیائی
نہیں معلوم یہ شہر خموشاں کیسی بستی ہے
زمیں آباد ہو جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
راقم الحروف جن ممتاز افراد کے نام سے بچپن ہی میں آشنا ہوا، ان میں حضرت الحاج مولانا شمس الدین صاحب بانی و مہتمم جامعہ تعلیم القرآن و جامعة الصالحات گاؤں اڑائی حویلی تحصیل منڈی پونچھ جموں و کشمیر کا اسم گرامی نمایاں ہے وہ اپنی سادگی ،شرافت، دیانت و امانت، حُسنِ خُلق اور منکسرالمزاجی جیسے اوصاف کی بدولت ہر دل عزیز تھے۔ آپ کے تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ “وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے”۔ اس انجمن کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ بذلہ سنج بھی تھی،مدبر بھی، عالم با عمل بھی ، خاموشی، قناعت اور سنجیدگی اس انجمن کی پہچان تھی۔ عاجز اس زمانے سے ان کو دیکھ رہا تھا جب عقل و شعور کوسوں دور ہوتا ہے اور پھر عمر کے ساتھ ساتھ ان کو زیادہ سمجھنے اور جاننے کا موقع ملا مگر آہ! عظیم سلف کے یہ عظیم خلف اس دنیائے بے مایہ میں زندگی کی 79بہاریں بتا کر بتاریخ 10رجب المرجب 1446ھ مطابق 11جنوری 2025ء بہ وقت شب 1بجے ضلع ہسپتال پونچھ میں داغ مفارقت دے گئے۔ (انا للّٰہ و انا الیہ راجعون) جامعہ تعلیم القرآن و جامعة الصالحات دونوں ادارے آپ کی مخلصانہ جدوجہد کا ثمرہ ہیں ؛ مرحوم انتہائی جاں فشانی اور دل سوزی کے ساتھ ان مدرسوں کی ظاہری اور باطنی توسیع و ترقی میں لگے رہے۔ تا آں کہ وہ رفتہ رفتہ ان کی زندگی ہی میں بڑے مدرسے بن گئے جن میں ابتدائی اور متوسطات سے لے کر اعلی تعلیم تحفیظ القرآن کے وہ تمام روایتی شعبے قائم ہیں جو ہمارے یہاں کے کسی بڑے مدرسے میں عام طور پر ہوتے ہیں۔ ان کے مدرسے بازار کے شور شرابے اور گنجان آبادی کے مسائل سے بالکل الگ تھلگ ہیں اور آب و ہوا کے حوالے سے خوش گوار اور بڑی پُر فضا ہے۔ مجھے میرے شب و روز کے مشاغل اس کی اجازت نہیں دیتے کہ میں اِدھر اُدھر جاؤں بایں وجہ متعدد دینی و عصری اداروں کے قابل قدر ذمہ داران کو ناراض کر چکا ہوں جن کی یہ خواہش رہی کہ میں ان کے اداروں کے انعامی پروگراموں میں شرکت کروں اور ان کی قابل قدر کوششوں کو اپنے قلم سے اجاگر کروں جیسا کہ میرا معمول بھی ہے اور مزاج بھی۔ لہٰذا دو تین بار ہی میرا ان کے مدرسے جانا ہوا ہے اور وہ بھی تعطیلات کے دورانیہ میں ایک بار موسم سرما میں بڑے بھائی ماسٹر خوشنوداحمد خاں کی منشاء پر پُرفضا ماحول کے نظارے کی غرض سے۔ اور دوسری بار ہمارے جامعہ کے ایک ابنِ قدیم مولوی محمد اسحاق ضیائی صاحب کے والد مرحوم کی وفات کے موقع پر اس علاقہ میں مجھ سے پڑھے ہوئے طلبہ میں سے حافظ امتیازاحمد بٹ بن ماسٹر محمد اسلم بٹ صاحب جو اُس وقت جامعہ تعلیم القرآن میں تھے کہ اصرار پر مدرسہ کے قریب ان کے گھر پہنچے چند لوگ اور ہمراہ تھے۔ کچھ دیر تو میزبان کے ساتھ بات چیت میں مشغول رہے ان کی بات میں ادب شائستگی اور سنجیدگی اور ہر حرکت و سکون میں نظم و ضبط نمایاں تھا نیز ان کے گھر کے کمرے کی ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ دسترخوان پر برتنوں کا رکھ رکھاؤ کو بہ غور دیکھا یہ سب کچھ دیکھ ؛ سن اور برت کر میرے دل و دماغ پر ایک گہرا نقش ثبت ہوگیا اور میں ان کے روبرو مہمانوں کے ساتھ ان کے اس ہنر مندانہ طریقے سے پیش آنے پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکا۔ جس پر انھوں نے فرمایا کہ یہ سب جامعہ ضیاءالعلوم کے اساتذہ کی بابرکت صحبت کا رہین منت ہے۔ جن کی دانش مندانہ تربیت سے میں نے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے۔ قصہ طولانی تیسری بار سال رفتہ کے وسط میں جامعہ ضیاءالعلوم کے مدرس مفتی امتیازاحمد ضیائی کے جنازے میں شرکت کی غرض سے۔ تینوں بار تعلیم القرآن بھی جانا ہوا گاؤں اڑائی اور قرب و جوار میں دینی بیداری اور ماحول سازی میں مولانا مرحوم کی جو قربانیاں ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوراندیش اور صاحب الرائے ہونے کی بنا پر خطہ بھر میں مولانا کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ؛ مادرعلمی جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ کے وہ رکنِ شوریٰ بھی تھے۔ جامعہ کے سالانہ انعامی پروگراموں میں سے کسی ایک میں بحثیت صدر مجلس بھی آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ سالِ رواں بھی تشریف لائے اور ان سے یہ آخری ملاقات رہی۔ مولانا مرحوم با اخلاق تہجد گزار اور صالح مزاج تھے بلکہ سادگی ان کا شیوہ اور یہی ان کی پہچان تھی تصنع سے کوسوں دور شرعی وضع قطع اور سادہ لباس میں رہتے اور یہ خوبیاں ان کی ذات کی حد تک ہی نہیں تھیں بلکہ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی دینی تعلیم سے آراستہ کرکے اپنی زندگی ہی میں خدمت دین کے کام میں لگا دیا مولانا اخلاص و عمل کے حسین پیکر تھے۔ ویسے تو مولانا مرحوم سے سرسری ملاقات نہیں بلکہ ملاقتیں رہیں تاہم ایک یادگار ملاقات اور قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع 20011ء میں سفر حج کے دوران ملا۔ مکہ مکرمہ میں ہمارا قیام ایک ہی ہوٹل میں ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے کمروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے رفقاء میں سبھی نوجوان تھے جب کہ مولانا مرحوم کے ساتھ معمر لوگ قیام پذیر تھے۔ بحمداللّٰہ تعالیٰ پورے سفر حج میں ہم نوجوانوں میں معمر حجاج کرام کی خدمت کا جذبہ بھی شباب پر رہا یہی وجہ ہے کہ مولانا مرحوم نے ایک روز باصرار ہم نوجوانوں کی دعوت بھی کی اور پورے سفرِ حج میں عبادت میں ہماری ڈھارس بندھاتے رہے۔ حج سے فراغت پر مولانا نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ مدینہ منورہ کا سفر ہم ایک ساتھ کریں فرمایا کہ راستے کے سفر سے ہم لطف اندوز بھی ہوں گے اور حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کی یاد سے ہمیں سعادت حاصل ہوگی۔ کیا عجب کہ اس صحرا میں کسی ایسی جگہ پر بھی ہماری نگاہیں پڑجائیں جہاں سے کبھی ان قدسی صفات انسانوں کا گزر ہوا ہوگا۔ ساتھ رہیں گے باتیں کرتے چلیں گے اور مجھے تم سے اُنسیت بھی ہوگی وغیرہ وغیرہ مولانا مرحوم کے ساتھ اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنی دیر تک اس طرح بے تکلفی کی صحبت تو کیا ملاقات کا بھی موقع نہیں ملا تھا۔ اس تفصیلی ملاقات میں جو مبارک شہر کے مبارک سفر کے دوران ؛ مجھے ان کے ساتھ حاصل ہوئی ؛ وہ انتہائی متواضع ؛ بے نفس ؛ سادہ مزاج ؛ دینی فکر سے سرشار نظر آئے۔ غرضیکہ مولانا شمس الدین کی رفاقت نے ہمارے سفر حج کو پُر بہار بنا دیا یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے سفرنامہ حج بنام ۔ (کشمیر کے کہساروں سے مہبط وحی تک) میں بھی والہانہ تذکرہ کیا تھا۔ سفرحج میں یوں تو دوست دار بہت تھے لیکن بقول میر تقی میر کہ پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں …… تمہی بھائے بہت مخلصم حافظ محمد صدیق ضیائی صاحب اڑائیوی مدرس جامعہ ضیاءالعلوم سے مولانا شمس الدین کے حالات زندگی جاننے پر معلوم ہوا کہ مولانا کا دائرہ خدمات بڑا وسیع تھا جن کی تفصیل کے لیے کالم کی تنگ دامنی مانع ہے۔ چنانچہ خدمات سے بھرپور زندگی گزار کر دین متین کا یہ مخلص خادم اپنے مالک حقیقی کے دربار میں حاضر ہوگیا ؛ حضرت مولانا شمس الدین کی وفات 79 برس کی عمر میں ہوئی ؛ جامعہ تعلیم القرآن اڑائی کے دار جدید میں ان کی نماز جنازہ حضرت مولانا سعیداحمد حبیب صاحب نائب مہتمم جامعہ ضیاءالعلوم و صدر تنظیم علماء اہل السنة والجماعة پونچھ کی اقتداء میں ادا کی گئی ؛ جس میں ہزاروں متعلقین و محبین اور تلامذہ نے شرکت کی اور آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ مولانا کے اہل خانہ کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے دعا ہے کہ اللّٰہ پاک مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی محبت و عقیدت کی برکت سے راقم کو بھی حسن خاتمہ کی سعادت سے سرفراز کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ حضر ت کی علمی دینی اور دعوتی خدمات کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے تعلیم القرآن اور جامعة الصالحات کو تا دیر قائم و دائم رکھے۔
رابطہ۔96823 27107