فکرو فہم
حافظ پیر شبیر احمد
انسانیت کی پیدائش اور اس دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت میں جان اُس وقت پڑتی ہے جب وہ عمل اخلاص کے ساتھ کیا جائے۔ چنانچہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو، اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔ ہر انسان کا بنیادی مطمع نظر یہی ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کی رضا حاصل کرے اور جنت کا داخلہ اس کو نصیب ہو ،اس مقصد کے لیے اخلاص کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا حسن معتبر ہوتا ہے نہ کہ محض کثرت ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، جس نے موت اور زندگی کو (اس لئے ) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔ اہل علم نے اخلاص کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اطاعت میں صرف اللہ تعالیٰ کو مقصود بنانا اخلاص ہے۔ بعض نے کہا کہ عمل اس انداز سے کرنا کہ اس میں نہ تو مخلوق کی واہ واہ یا مذمت پیش نظر ہوا اور نہ ہی خود وہ کام کرنے والا شخص اس پر اِترار ہا ہو۔ بعض کے نزدیک انسان کے اعمال میں اُس کا ظاہر و باطن با هم موافق ہو یہ اخلاص ہے ۔ بعض نے فرمایا، اپنے اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہو ۔ ایک حدیث مبارکہ میں نبی رحمتؐ نے فرمایا : یقینا ًاللہ تعالیٰ اپنے متقی، مخلوق سے مستغنی اور اپنے نیک اعمال مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپا کر کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں: اخلاص سے خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو نہ تھکائے، کیوں کہ بغیر اخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اُس مسافر کی سی ہے، جو اپنے سفری سامان کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو ۔ کیوں کہ اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے ، جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔ ا خلاص کے بڑے اچھے ثمرات اور بڑے عظیم اور جلیل القدر چندفوائددرج ذیل ہیں۔
(1) دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اخلاص کے فضائل و ثمرات میں سے ہیں ۔ (2) اخلاص اعمال کی قبولیت کا سب سے عظیم سبب ہے، بشرطیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع شامل ہو۔ (3) اخلاص کے نتیجہ میں بندے کو اللہ کی اور پھر فرشتوں کی محبت حاصل ہوتی ہے اور زمین ( والوں کے دلوں ) میں اس کی مقبولیت لکھ دی جاتی ہے۔ (4) اخلاص عمل کی اساس اور اس کی روح ہے۔ (5) اخلاص تھوڑے عمل اور معمولی دعا پر بیش بہا اجر اور عظیم ثواب عطا کرتا ہے۔ (6) مخلص کا ہر عمل جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو لکھا جاتا ہے، وہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو۔ (7) مخلص جس عمل کی بھی نیت کرے لکھ لیا جاتا ہے گرچہ اسے انجام نہ دے سکے۔ (8) مخلص اگر سو جائے یا بھول جائے تو معمول کے مطابق جو عمل کرتا تھا اسے لکھا جاتا ہے۔ (9) اگر مخلص بندہ بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو اس کے اخلاص کے سبب اس کے لئے وہی عمل لکھا جاتا ہے جو وہ حالت اقامت و صحت میں کیا کرتا تھا۔ (10) اخلاص آخرت کے عذاب سے نجات دلاتا ہے۔ (11) دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات اخلاص کے ثمرات میں سے ہے۔ (12) اخلاص کے سبب آخرت میں درجات کی بلندی حاصل ہوتی ہے۔ (13) حسن خاتمہ نصیب ہوتا ہے۔ (14) دعاؤں کی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ (15) قبر میں نعمت اور شادمانی کی بشارت ملتی ہے۔ (16) جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کی حقیقت اور اس کا نور نصیب فرمائے ہمیں اپنے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے۔ آمین
[email protected]