بلا شبہ اس دنیا میں ہرانسان،جو کسی بھی فرقہ یا قوم سے تعلق رکھتا ہو، کو اپنے خالق کی طرف سے اُسی طرح کی آزادی حاصل ہے، جس طرح کسی بھی حیوان کو حاصل ہے۔مگر انسان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندرضمیر نام کی ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے جو کسی اور حیوان کے اندر نہیں ہے۔یہ وہ صفت ہےجس کے باوصف وہ اپنی سوچ کے مطابق اپنی آزادیٔ رائے کا بھی استعما ل کرتاہے۔بغور دیکھا جائے تو انسانی زندگی کا یہی وہ معاملہ ہے جس کی بناء پر لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتے ہیں، اختلاف اجتماعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ ہر فرد اور ہر قوم کا مزاج دوسرے فرد اور دوسرے قوم سے مختلف ہوتا ہے ،جس کی بنا پر اُنہیں ایک دوسرے سے ناخوش گواری کا تجربہ پیش آتا ہے ،ایک دوسرے کے درمیان اختلاف کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔گویازندگی کے کسی بھی معاملے میںاختلاف ایک اہم حصہ ہے،جس سے ناپسندیدہ صورت حال کا پیش آنا فطری ہے ،جس کو روکنا ممکن نہیں۔اب اگر ہرنا خوشگواری یا اختلاف سے ٹکرائو کیا جائےتو مقابلے کی اس کو شش سے کوئی بھی مسئلہ گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلا جائے گا ۔اسکے بجائے اگر اعراض سے کام لیا جائے،ناخوش گوار صورت حال کو برداشت کرکے نظر انداز کیا جائےاور اختلاف کے با وجود لوگوں کے ساتھ متحد رہا جائےتو یہ ایک بہترین معاشرتی طریقہ ہی نہیں بلکہ ایک بڑا کارِ خیر بھی ہے۔ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص شکایت اور اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ اچھے رویے پر قائم رہے ،اپنے منفی جذبات کو دبا کر مثبت روش کا ثبوت دے تو وہ خیر خواہوںمیںشمار ہوتا ہے۔لیکن آج کے دور میں نا خوش گوار صورت حال یا اختلاف رائے کا درست طریقے سے استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور عوامی بحث و مباحثوں میں اکثر لوگ جذباتی ہوکر ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے لگتے ہیں،نہ ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی رائے سنجیدگی سے سُنتے ہیں، جس سے معاشرتی اختلافات میں تلخی بڑھ جاتی ہے۔جبکہ آج کے معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اختلافات کو حکمت اور تحمل کے ساتھ سنبھالا جائےاور اختلاف رائے کو علم و حکمت کا ذریعہ بنایا جائے۔ہمارے معاشرے میں یہی دیکھنے میں آتا ہےکہ بیشتر تنقیدی مِزاج کے افراد دوسروں کواصلاح کے بہانے تنقیدکانشانہ بناکر اُن کی پر نکتہ چینی کرتےہیں، اُن کے دِل دُکھاتے ہیںاور ان کے عیبوں کو اُچھالنے میں مصروف رہتے ہیں۔جس سے یہ سوال اُبھرآتا ہے کہ کیا تنقید محض تنقید کے لیے واقعی فائدہ مند ہے یا یہ ہماری محنت اور حوصلے کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں لوگ دوسروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیںاور اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ اختلافات دنیا کے سامنے ہمیں کیا بنا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو الفاظ ہم دوسروں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ صحیح ہوتے ہیں یا غلط ؟ کیا ہم اتنے بے فکر ہوکر یہ بھول چکے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم دونوں اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں؟ اس لیے ہمیں اپنی زبان اور قلم کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے سے بچناچاہئے۔ہمیں سیکھنا چاہئے کہ خاموشی بھی ایک نعمت ہےاور ہر معاملے میں بولنا ضروری نہیں ہے۔ بعض اوقات خاموشی سب سے بہترین جواب ہوتا ہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی پر تنقید کرنا آسان ہے، لیکن خود کو دُرست رکھنا مشکل ہے۔ ہمیں دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم خود بہتر ہوں گےتو ہم دوسروں کو بہتر بنا سکیں گے۔ لیکن اگر ہم خود اندر سے کھوکھلے ہیں تو ہماری تنقید بے معنی ہو گی۔یاد رکھیں!زبان ایک ایسا ہتھیار ہے جسے احتیاط کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا کا راج ہے، ہماری ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لکھے ہوئے الفاظ زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں اور ان کے اثرات بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ہمیں اپنے الفاظ کی قیمت کو سمجھنا چاہیے اور ہر بار کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے رُک کر سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہمارے بول یا الفاظ ہر کسی کے لئے قابلِ قبول ہوسکتے ہیں؟جبکہ اختلاف سیاسی ہو ،سماجی ہو یا دینی ، ہمیشہ ادب واحترام اور حکمت کے ساتھ ہی دورکئے جاسکتے ہیں۔