مسعود محبوب خان
تکریمِ انسانیت عصر حاضر کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جو انسانوں کے مابین بڑھتی ہوئی تفریق، نفرت اور ظلم و ستم کے خلاف ایک مضبوط اصولی مؤقف فراہم کرتی ہے۔ موجودہ دور میں، جب کہ انسانیت مختلف چیلنجز اور بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے، جیسے کہ معاشرتی عدم مساوات، نسل پرستی، جنگیں، اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی، تکریمِ انسانیت کا اصول انسانوں کے مابین باہمی احترام، رواداری اور اخوت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ نیلسن منڈیلا کا ایک اہم قول ہے کہ ’’ایک آزاد دنیا کی بنیاد انسانیت کی اقدار پر رکھی جاتی ہے، جہاں ہر انسان کی عزت و احترام کیا جاتا ہے۔‘‘
تکریمِ انسانیت کا اسلامی تصور :
اسلام نے ہمیشہ انسانیت کی عزت و تکریم پر زور دیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ولقد کرمنا بنی آدم ‘‘یعنی ’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘ (سورۃ الاسراء: 70)۔ یہ آیت اس بات کا واضح اعلان کرتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کو عزت بخشی ہے۔ اس آیت میں انسان کی فضیلت اور احترام کا ایک جامع تصور پیش کیا گیا ہے، جو بلا تفریق ہر انسان کے لیے ہے۔ اسلام کی نظر میں ہر انسان، چاہے وہ کسی بھی نسل، رنگ، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو، عزت و احترام کا مستحق ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں، ’’سب سے عظیم انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ معیار پر برقرار رکھے۔‘‘
اسلامی تصور میں تکریمِ انسانیت کی بنیادیں :
اسلام میں ہر انسان کو، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل یا قوم سے تعلق رکھتا ہو، ایک عظیم مقام حاصل ہے۔ انسانی وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اسلام نے کسی بھی قسم کی تفریق، ظلم و ستم، اور انسانی حقوق کی پامالی کو سختی سے ممنوع قرار دیا ہے۔ اسلام میں زندگی کا حق ہر انسان کو برابر حاصل ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ’’جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ: 32)۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا احترام کس قدر اہم ہے۔
اسلام کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ رسول اللّٰہؐ کا خطبہ حجۃ الوداع اس بات کا واضح ثبوت ہے، جہاں آپ نے فرمایا کہ ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، اور کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے‘‘۔ اسلام نے ہر انسان کو آزادی، انصاف اور حقوق کی ضمانت دی ہے۔ اسلام نے غلامی کو ختم کرنے اور غلاموں کے حقوق کی پاسداری کی تعلیم دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورتوں، بچّوں، اور اقلیتوں کے حقوق کو بھی پورا احترام دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں، ’’اگر تمہارے ہاتھ میں کسی کا حق ہے تو اسے دینے میں جلدی کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا امین بنایا ہے‘‘۔ اسلام میں دوسرے مذاہب اور قوموں کے ساتھ رواداری اور احترام کا درس دیا گیا ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور تعلیمات کے ذریعے لوگوں کو دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے اور باہمی محبت و اخوت کو فروغ دینے کی ترغیب دی۔اسلام کا تصور تکریمِ انسانیت ایک جامع اور عالمگیر اصول ہے جو انسانوں کے مابین باہمی احترام، رواداری اور عدل کی بنیاد پر ایک پُرامن معاشرے کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم انسانیت کی عزت و احترام کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں، تو ہم نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی ایک بہتر اور پُرامن دنیا کی تشکیل دے سکتے ہیں۔
عصر حاضر کے چیلنجز :
عصر حاضر میں، جہاں دنیا ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے، انسانیت کی تکریم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نسل پرستی، طبقاتی تقسیم، مذہبی تعصب، اور سیاسی مفادات کی خاطر انسانی حقوق کی پامالی معمول بن چکی ہے۔ جدید سوسائٹی میں خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت کے لئے ہمدردی اور محبت کی جگہ نفرت اور تعصب نے لے لی ہے۔ یہ ایک سنگین چیلنج ہے جس کے باعث معاشرے میں بگاڑ اور عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند اہم چیلنجز مندرجہ ذیل ہیں۔
نسل پرستی آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے مختلف حصّوں میں لوگ اپنی رنگت، نسل، یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس قسم کا تعصب انسانی وقار کی نفی کرتا ہے اور معاشرتی تفریق کا باعث بنتا ہے۔ معاشرتی طبقاتی تقسیم بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق معاشرتی استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ امیر طبقہ وسائل پر قابض ہو جاتا ہے، جب کہ غریب طبقہ بنیادی ضروریات کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ یہ عدم مساوات انسانیت کی تکریم کے اصول کے خلاف ہے۔مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور تعصب بھی انسانی تکریم کے خلاف ہے۔ مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان نفرت اور دشمنی بڑھ رہی ہے، جس سے معاشرتی تانا بانا بکھر رہا ہے۔ مذہبی اختلافات کو جنگ اور تشدّد کا جواز بنایا جا رہا ہے، جو کہ انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے انسانی حقوق کو پامال کرنا عصر حاضر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جنگوں، سیاسی طاقت کے کھیل، اور خود غرضی کی بنا پر معصوم انسانوں کی جانیں ضائع کی جا رہی ہیں اور ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل انسانی تکریم کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
جدید سوسائٹی میں خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس خود غرضی نے انسانی تعلقات میں محبت اور ہمدردی کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی روابط کمزور ہو رہے ہیں۔ یہ چیلنجز انسانیت کی تکریم اور اجتماعی فلاح و بہبود کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر انسانیت کے اصولوں کو زندہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم ان مسائل کا شعور پیدا کریں اور اپنی زندگیوں میں انسانی اقدار کو ترجیح دیں تاکہ ایک بہتر اور زیادہ پُرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔
تکریمِ انسانیت کا احیاء :
ان حالات میں تکریمِ انسانیت کا دوبارہ احیاء کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، جو موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ انصاف، محبت، اور احترام کا برتاؤ کریں۔ مختلف قوموں، مذہبوں، اور ثقافتوں کے درمیان فرق کو قبول کرتے ہوئے، ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں۔
انصاف انسانیت کی بنیاد ہے۔ ہمیں اپنے معاملات میں انصاف کو ہر حال میں ترجیح دینی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر انسان کو بلا تفریق انصاف ملے، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل، یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ انصاف کے بغیر معاشرتی توازن اور امن کا قیام ممکن نہیں۔ محبت اور ہمدردی وہ عناصر ہیں جو انسانی دلوں کو قریب لاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے، ’’انسانیت کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایہ کی مدد کرے، چاہے وہ اس کی قوم سے تعلق رکھتا ہو یا نہیں‘‘۔ ضرورت مندوں کی مدد کرنا، دکھ درد میں شریک ہونا، اور دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہونا انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ انسانی وقار کا احترام ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہیے، چاہے ہماری سوچ، عقائد، یا ثقافتیں مختلف ہوں۔ باہمی احترام سے معاشرتی ہم آہنگی اور امن کو فروغ ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں،’’تمہاری سب سے بڑی دولت وہ ہے جو تم اپنے ہمسایوں اور کمزور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ حاصل کرتے ہو۔‘‘دنیا میں مختلف مذاہب اور ثقافتیں موجود ہیں، اور ہر ایک کی اپنی روایات اور عقائد ہیں۔ ہمیں ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے دوسروں کے مذہبی عقائد اور ثقافتی روایات کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ رؤیہ معاشرتی ہم آہنگی کو بڑھاتا ہے اور اختلافات کو مثبت انداز میں قبول کرنے کی تربیت دیتا ہے۔انسانیت کی تکریم کے احیاء کے لیے باہمی تعاون ضروری ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقے، قومیں، اور مذاہب کے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ باہمی تعاون سے نہ صرف فرد کی بلکہ پورے معاشرے کی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ انسانیت کی تکریم کے احیاء کے لیے تعلیم کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو انسانی حقوق، اخلاقیات، اور معاشرتی ذمّہ داریوں کی تعلیم دینی چاہیے۔ شعور کی بیداری سے لوگ ایک دوسرے کی عزت کرنے، انصاف فراہم کرنے، اور محبت و ہمدردی کو فروغ دینے کے قابل بن سکتے ہیں۔
تکریمِ انسانیت کا احیاء ایک مسلسل عمل ہے جس کے لیے ہمیں اپنے افعال اور سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم انصاف، محبت، احترام، اور تعاون کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں انسانیت کی قدر و منزلت سب سے بڑھ کر ہو۔ اس عمل سے نہ صرف فرد بلکہ پورا معاشرہ امن، خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تکریمِ انسانیت عصر حاضر میں نہ صرف ایک اخلاقی ذمّہ داری ہے بلکہ یہ عالمی امن، عدل اور انصاف کے قیام کا بنیادی ستون بھی ہے۔ اگر ہم انسانیت کی تکریم کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیں اور اس پر عمل کریں تو ہم ایک بہتر، پُرامن اور انصاف پر مبنی دنیا کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔