پروفیسر ڈاکٹر محمد یسین
جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت مختلف الجہات ہے ۔ انہوں نے بیک وقت کئی اصناف سخن میں اظہارِ خیال کیا اور اپنے قلم کے لمس سے اور فکر وخیال کی توانائی و رعنائی سے ادب کا آسمان چھو لیا ۔ احمد ندیم قاسمی کا شمار برصغیر کے نمایاں اور بڑے لکھاریوں میں ہوتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد جن لکھنے والوں کا نام سر فہرست ہے ،ان میں جناب احمد ندیم قاسمی کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ وہ بڑے شاعر ہی نہیں تھے ، بڑے افسانہ نگار بھی تھے ۔ انہوں نے تنقید میں بھی اپنا نام پیدا کیا اور نصابی تنقید سے ہٹ کر اس صنف میں اظہار کیا ۔ احمد ندیم قاسمی کی تنقید پڑھ کر یہ اندارہ ہوتا ہے کہ تنقید بھی تخلیقی سطح پر لکھی جا سکتی ہے ۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ احمد ندیم قاسمی ، اگر باقاعدگی کے ساتھ تنقید لکھتے ، تو اپنے عہد کے سب سے معتبر اور بڑے نقاد ہوتے ، لیکن انہوں نے جس قدر بھی تنقید لکھی ہے وہ ان کے بڑا نقاد ہونے کی ایک واضح دلیل ہے ۔ ان کی شاعری کا تو ہر قاری معترف ہے ۔ ان کے بے شمار اشعار لوگوں کو زبانی یاد ہیں ۔ مثلاً میں یہاں دو اشعار کا حوالہ بہت ضروری سمجھتا ہوں ۔
یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی ِ فن یاد آئی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اتر جاؤں گا
گزشتہ دنوں برادرم جناب شاعر علی شاعر نے اپنے ادارے سے شایع کردہ ایک کتاب بطور تحفہ ارسال کی جس کا ٹائٹل ہے ’’ احمد ندیم قاسمی خاکوں اور یادوں میں ‘‘۔ اسے جناب شاہد حنائی نے مرتب کیا ہے ۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 4 پر جناب احمد ندیم قاسمی کی تحریروں سے ایک مختصر اقتباس دیا گیا ہے ، جو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ احمد ندیم قاسمی نے اس میں نہ صرف اپنے نظریۂ فن کی وضاحت کی ہے ، بل کہ اپنے نظریۂ حیات کو بھی ترتیب دے دیا ہے ۔ آپ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔ ’’ آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ ہے انسان دوستی ، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس بنیاد کو اکھیڑنے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔‘‘ یہاں اس اقتباس کی حمایت اور تائید میں دو اشعار کا ذکر ضروری خیال کرتا ہوں۔ آپ یقیناً میری دلیل سے اتفاق کریں گے۔
دشمن بھی چاہے تو میری چھاؤں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سر ِ راہ گزر ہوں
یہ فقط میرا تخلص ہی نہیں ہے کہ ندیم
میرا کردار کا کردار ہے اور نام کا نام
زیر نظر کتاب کے مرتب نے یہ اقتباس دے کر جہاں جناب احمد ندیم قاسمی کے نظریۂ فن کو اجاگر کیا ہے ، وہاں اپنی فکری وابستگی کا بھی واضح اشارہ دے دیا ہے ۔ اس کتاب میں کوئی اکتیس خاکوں کا انتخاب کیا گیا ہے ، جو مختلف لکھنے والوں کے قلم کا اعجاز ہے ۔ جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور فن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ، جہاں تک خاکوں کا تعلق ہے تو ان کی زندگی میں ہی احباب نے ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں احمد ندیم قاسمی کی شخصیت پر بات شروع کر دی تھی ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان خاکوں میں سے بیشتر میری موجودگی میں مختلف تقریبات میں پڑھے گئے ۔ اب ان خاکوں کو کتابی شکل میں دیکھ کر یقیناً خوشی ہوئی ہے کہ جناب احمد ندیم قاسمی کی فکر نہ صرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ، بل کہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ بھی کر رہی ہیں ۔
خاکوں کی اس کتاب میں جن نمایاں لکھنے والوں کے خاکے شامل کئے گئے ہیں ، ان میں آغا سہیل ، جناب اے حمید ، ڈاکٹر خورشید رضوی ، جناب رحیم گل ، ڈاکٹر سلیم اختر ، جناب شورش کشمیری ، سید ضمیر جعفری اور جناب محمد طفیل ( نقوش ) کے خاکے نہ صرف جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کو واضح کرتے ہیں ، بل کہ ان کی فنی اور فکری زندگی کو بھی احاطۂ تحریر میں لا تے ہیں ۔ خاکہ نگاری اگرچہ ایک مشکل کام ہے اور یہ صنف
ِ ادب اپنی پہلو داری اور چلبلے پن کی وجہ سے اردو ادب میں خاصی پزیرائی حاصل کر چکی ہے ۔ سعادت حسن منٹو کے خاکے ہمارے ادب کا حصہ ہی نہیں ہیں ، بل کہ قاری انہیں ایک افسانے کی صورت پڑھتا ہے اور حظ اٹھاتا ہے ۔ منٹو نے خاکہ نگاری کا راستہ اپنا کر آنے والوں کے لیے راہ ہموار کی ہے ۔ زیر نظر کتاب میں شایع شدہ خاکوں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں تاکہ نئی نسل جناب احمد ندیم قاسمی کے مختلف ادبی پہلوؤں سے آشنائی حاصل کر سکے ۔ آغا سہیل جناب احمد ندیم قاسمی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ انگہ ضلع سرگودھا کا یہ پیر زادہ جس نے کیمبل پور اور بہاول پور میں تعلیم مکمل کی اور یہ تعلیم اس نے اپنے چچا کی زیر نگرانی حاصل کی ، جو 1934ء میں وفات پا گئے تھے ۔‘‘ جناب اے حمید اپنے خاکے احمد ندیم قاسمی میں لکھتے ہیں ،’’ قاسمی صاحب کی شرافت ان کی شاعری اور افسانوں سے زیادہ مشہور ہے ، کوئی کافر ہی ان کی شرافت سے انکار کر سکتاہے ‘‘۔ جناب رحیم گل اپنے خاکے’’باہر کے رابطے ، اندر کے رشتے‘‘ میں رقم طراز ہیں ،’’ تب مجھے ان کے افسانے کنجری ، سناٹا اور گنڈاسہ یاد آئے اور میں فیصلہ نہ کر سکا کہ ندیم صاحب شاعر بڑے ہیں یا افسانہ نگار ، اخبار نویس بڑے ہیں یا مدیر بڑے ہیں یا انسان بڑے ہیں ؟ ‘‘ جناب شورش کشمیری اپنے خاکے احمد ندیم قاسمی میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ میانہ قامت ، سنجیدہ چہرہ ، آنکھوں میں فلسفیانہ تفکر ، لہجے میں انکساری ، طبیعت میں سادگی اور پاکستان کے ترقی پسند مصنفین کا راہنما ‘‘۔ یہ ایک فقرہ ہی جناب احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کو اجاگر کر دیتا ہے ۔ سید ضمیر جعفری اپنے خاکے ‘’’ادب کا منگلا ڈیم ‘‘‘میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں،’’ ندیم نے ابھی تک جس رنگ سے جتنا لکھا تھا ، گو وہ اعلی ادب ہی تھا ، پھر اس کے فکر و نظر کی خوبیاں اور خوبصورتیاں ندیم کے ادب کو باقی اعلیٰ ادب سے جدا اور ممتاز کرتی ہیں ۔‘‘
زیر نظر کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک مدت کے بعد احمد ندیم قاسمی پر بہت سے لکھنے والوں کی اکٹھی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ میں اس کاوش اور اس کی اشاعت پر مرتب اور ادارۂ رنگ ادب کے لئے تحسین و مبارک باد پیش کرتا ہوں اور قارئین کو یہ کتاب پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں ۔