عبد المجید بھدرواہی
میری زندگی کے شب و روز بڑی مشکل سے گزرتے تھے۔مشکل سے دو وقت کا کھانا میسر ہوتاتھا۔میں پٹنہ کی سڑکوں پر مارامارا پھرتاتھا۔میرا جینابہت مشکل ہوگیاتھا۔پھر ایک دن میری ملاقات ایک کتب فروش سے ہوئی جس کی دوکان کے تھڑے پر میں تھک ہار کر تھوڑی دیر سستانے کیلئے رکتاتھا۔یہ کتب فروش اخبار بھی بیچتاتھا۔وہ مجھے بھی یہ اخبار شہر کی گلی کوچوں اور بازار میں بیچنے کیلئے دیتاتھا۔دن بھر یہ اخبار بیچنے سے جورہ جاتے تھے وہ مجھے دیتاتھا کہ ان کے لفافے بناکر مونگ پھلی بیچنے والوں کو یاپکوڑے بیچنے والوں کو دے دیاکروں۔ اس سے بھی تھوڑی بہت آمدنی ہوتی۔وہ اخبار فروخت کرنے کے لئے مجھے الگ سے اجرت دیتاتھا۔
میرے علاوہ گھر میں میری اہلیہ اور چھوٹابیٹاتھا۔بیوی لفافے بناتی اور بیٹاپرائمری کلاس میں پڑھتاتھا۔وہ جب ذرا بڑا ہواتووہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ فالتو وقت میں ایک دوکاندار کے ہاں بیٹھتا تھاجس کے عوض وہ اس کو تھوڑا سامحنتانہ دیتاتھا۔کتب فروش جب کسی دوسرے کام میں مصروف ہوتایااس کی صحت ناساز ہوتی تو وہ مجھے دوکان پر بٹھاتاتھا۔میں بڑی ایمانداری سے دن کی کمائی اس کو گھر پہنچادیتاتھا۔وہ میری ایمانداری سے بہت خوش تھا۔وہ اکثر دوکان میرے حوالے کردیتااور خود گھر پر آرام کرتا۔اس کی طبیعت اب اکثر ناساز رہتی تھی۔اب میرے بدلے میرا بیٹااخبار فروخت کرتاتھااورپھر سکول جاتاتھا۔
ایک دن جب مالک بہت زیادہ بیمار ہواتواس نے مجھے دوکان کاساراکام سمجھاکر سونپ دیا۔میں بڑی خوش خلقی اور ایمانداری سے اس کو دن بھر کی کمائی دے دیتااور ساتھ میں اس کی تیمارداری بھی کرتا۔
اس نے یہ سب کچھ دیکھ کر ساراکاروبار دوکان وغیرہ عدالت میں لکھ کر میرے نام کردیا کہ میں اس کی جیتے جی تک اس کی خدمت کروں گا اور اس کے بعد یہ سب کاروبار مکاں وغیرہ اس کا ہوگاجس پر کسی اور کا حق نہ ہوگا۔اب میں پورے دن دوکان پر بیٹھتا۔ان کے گھر کا سودا سلف بھی لاتا۔ان کی سیوا اور خدمت بھی کرتااور ان کا علاج بھی کرواتا۔
ادھر بیٹے نے میٹرک پاس کیا۔پھر کالج سے بارہویں جماعت بھی پاس کی۔بیٹاپڑھائی میں ہوشیار تھا۔اس کو اپنی غربت کا احساس تھااس لئے بہت محنت کرتاتھا۔اس نے اگنو سے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔خوش قسمتی سے ایک دوست کی وساطت سے کالج میں پارٹ ٹائم لیکچرر کی نوکری ملی جو تھوڑی ہی دیر بعد مستقل ہوگئی۔گھر کی حالت بہت حد تک سدھر گئی تھی ۔والدہ نے اب لفافے بنانے کیلئے ایک کام والی کو رکھ لیا۔بیٹے نے اسی کام والی کے لڑکے کو اخبار فروخت کرنے کاکام دے دیا۔اس طرح دونوں اطراف سے تھوڑا بہت پیسہ آنے لگا۔
مالک کی بیماری نے زور پکڑااور پھر ایک دن وہ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔اب ساراکام مجھے ہی کرناپڑتاتھا۔میں نے اب دوکان پر کاپیاں، قلم ، پنسل اور سکولی کتابیں رکھنا شروع کیں اس سے میری آمدنی میں اضافہ ہونے لگا۔
آہستہ آہستہ میں نے ایک چھوٹا سا سیکنڈہینڈ پرنٹنگ پریس خریدا۔دوتین ملازم رکھنے کی ضرورت پڑی۔جتنا کام بڑھتاگیااتنے ملازم بھی رکھنے شروع کئے۔ میں نے شادی کے کارڈ اور شناختی کارڈ چھاپنے بھی شروع کئے۔اپنے لئے گھر خریدا،موٹرکار خریدی۔میرے محنت کا نتیجہ نکلا کہ مجھے بک سیلرس ایسوسی ایشن کا صدرچناگیا۔میرا نام سوسائٹی میں عزت و احترام سےلیا جانے لگا۔مجھے ہر محفل میں مدعو کیاجانے لگا۔دن بدن میری عزت بڑھتی گئی۔اب مجھے سیٹھ صاحب کے نام سے پکاراجانے لگا لیکن میں نے کبھی محنت ،خوش اخلاقی اور ایمانداری کو اپنے سے دور نہ کیا۔
بیٹے کی نوکری پکی ہوگئی۔اب رشتے آنے لگے کچھ میری وجہ سے کچھ والدہ کی وجہ سے اور کچھ بیٹے کے یاردوستوں کے واقفیت کی وجہ سے۔اسی دوران میں نے شہر کے وسط میں ایک بڑی دوکان خریدی۔اس دوکان کے خریدنے والے بہت تھے مگر بیچنے والے نے کہاکہ وہ اسے بیچے گا توصرف اور صرف سیٹھ صاحب کوورنہ نہیں بیچے گا۔
اللہ کا شکر بجالانے کیلئے میں نے چھوٹی سی دعوت رکھی جس سے پہلے تلاوت قرآن درود شریف اور سلام ادا کیاگیا۔میں اس فنکشن کیلئے گھر سے نکل ہی رہاتھاکہ ایک ادھیڑ عمر کا شخص اپنی بیٹی کے ساتھ میرے قریب آیا اور بولا ۔
‘جناب میں اپنی اس بیٹی کی نوکری کیلئے آیاتھامگر آپ اس وقت کسی نیک کام سے باہر جارہے ہیں۔میں پھر کسی دن آوٗں گا۔
کوئی بات نہیں، مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔اس نے کہاکہ اس نے ایم اے اردو کیاہے۔ساتھ میں ڈپلومہ ان پبلک ایڈمنسٹریشن کیاہے۔سوشل ویلفیئر سرٹیفکیٹ کورس اور پبلک ایویئرنیس ڈپلومہ بھی کیاہے۔اس شخص نے وضاحت سے کہا۔
اس کو دوتین کمپنیوں میں آفر آئی تھی مگر ہم دونوں کو وہاں کا ماحول اچھا نہ لگا۔آپ کی اور آپ کی کمپنی کی ہر جگہ سے تعریف ہی سنائی دی۔آپ کی دینداری اور خداترسی کا ہر کوئی معترف ہے،اس لئے یہاں چلے آئے۔
آپ کہاں سے آئے ہیں سیٹھ صاحب نے پوچھا۔
ہم ادیان پور سے آئے ہیں ۔اس شخص نے کہا۔
ارے!۔میرا مالک بدرالدین بھی اسی گاوٗں کا رہنے والاتھا۔ان کا چندماہ قبل انتقال ہوگیا۔
جناب!۔وہ میرا چچیرا بھائی تھا۔بوڑھے شخص نے کہا۔
بہت اچھا!۔آوٗ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو۔راستے میں باتیں کریں گے۔سیٹھ صاحب نے کہا۔
دعوت سے پہلے سیٹھ صاحب نے سامعین سے اپنی زندگی کی پوری روداد سنائی کہ وہ کس طرح اخبار کے ہاکر سے ترقی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا۔یہ بھی بتایاکہ جب وہ ادھر آرہے تھے تو یہ بزرگ اپنی بیٹی کو ساتھ لیکر میرے پاس آئے۔
ان کی کہانی سن کر مجھے اپنے دن یاد آئے۔
جس طرح میری ملاقات اپنے محسن مرحوم سے ہوئی تھی تقریباًاسی طرح ان بزرگ کی بھی میرے ساتھ ملاقات ہوئی۔ان بزرگ نے یہ بھی بتایاکہ ان کی شادی کے پانچ سال تک ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ان کے اس چچیرے بھائی کے دوبچے ہوئے۔انہوں نے بیٹااپنے ہاں رکھا اور بیٹی مجھے دے دی۔اللہ کاکرنا ایساہواکہ پھر ہمارے بھی ایک بیٹی ہوئی۔اس طرح اب میری دوبیٹیاں ہوگئیں۔میں نے دونوں بیٹیوں کو یکساں تربیت دی،پالاپوسا،تعلیم دی۔کسی کو بھی ذرا بھر بھنک نہ لگنے دی کہ ان میں سے کونسی میری اپنی بیٹی ہے اور کونسی اپنائی ہوئی بیٹی ہے۔اس بیٹی نے ایم اے انگریزی اور بی ایڈ کیاتواس کو بہت جلدنوکری مل گئی اور نوکری کے ملتے ہی رشتہ آیا اور میں نے فوراًہاں کرکے شادی کردی۔
میری اپنی بیٹی کے سبجیکٹ کی ڈیمانڈ نہ تھی اس لئے اس کو سرکاری نوکری نہ ملی۔یہ سب سن کر میں نے کہامیں اپنے مرحوم محسن جن کے احسان اور ہمدردی سے میں اس مقام پرپہنچاہوں مجھے اب اللہ کے کرم سے موقع ملاہے کہ میں ان کا تھوڑا بہت احسان اتاروں۔میں نے فیصلہ کیاہے کہ میں اس بیٹی کو اپنی بہو بناتاہوں اوراس کی تعلیم کے مطابق پبلک ریلیشن آفیسر کاکام سونپتاہوں۔
میں نے یہ دعوت نئے دوکان کی خوشی میں رکھی تھی اب میں اس دعوت کو منگنی کی دعوت میں بدل کر ایک نیک کام کی شروعات کرتاہوں اور تھوڑا سا مرحوم مالک کے احسان کا بدلہ بھی اتاروں گا۔دیکھئے اللہ نے کس طرح مجھ سے کیاکام لیااور کس طرح مرحوم کے احسان کا بدلہ اتارنے کے قابل بنایا۔
���
جموں، حال ہمہامہ سرینگر
موبائل نمبر؛8825051001