صداقت علی ملک
رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ روشنیوں سے جگمگاتا شہر، بازاروں میں ہجوم، کپڑوں کی دکانوں پر رش، حلوے اور مٹھائیوں کی خوشبو، غرض ہر چیز عید کی آمد کا اعلان کر رہی تھی۔
مگر شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں، جہاں سہولتوں کی کوئی کمی نہ تھی، وہاں ایک شخص تنہا بیٹھا خلا میں گھور رہا تھا۔ حسن، ایک کامیاب بزنس مین، جس کی زندگی کبھی رنگین تھی، مگر اب صرف کام اور دولت کے گرد گھومتی تھی۔
“اس بار میری عیدی؟”
چھت پر کھیلتے بچوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ حسن نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بچے ہنسی خوشی فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ان کے چہروں پر خالص خوشی تھی۔ حسن لمحہ بھر کو سوچنے لگا—کیا وہ بھی کبھی ایسا خوش تھا؟
دفتر میں سب ملازمین عید کی باتیں کر رہے تھے۔
“سر، آپ عید کہاں منائیں گے؟”
حسن نے روکھے لہجے میں کہا:
“کہیں نہیں، مصروف ہوں۔”
سچ تو یہ تھا کہ اب عید اس کے لئے محض ایک دن تھا، جس میں وہ عام دنوں کی طرح کام میں خود کو الجھائے رکھتا۔
رات کو فون بجا۔ اسکرین پر بہن مریم کا نام چمک رہا تھا۔
“بھائی، اس بار عید پر آ رہے ہو؟”
حسن خاموش رہا۔
“جب سے میرے والدین چلے گئے ہیں، گھر سنسان لگتا ہے۔ اس بار مت کہو کہ وقت نہیں!”
“مریم، میں مصروف ہوں…”
“وقت نہیں یا احساس نہیں؟ بھائی، کبھی اپنوں کے لئے بھی وقت نکالو!”
فون بند ہو گیا، مگر حسن کی بے چینی بڑھ گئی۔
چاند رات، ہر طرف روشنیوں کا سیلاب تھا۔ حسن کا دل کسی انجانے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا، سادہ مگر پُروقار، آنکھوں میں گہری، روشنی لئے۔
“بیٹا، میں دروازے دروازے جا رہا ہوں، کسی غریب کے لئے کچھ دے سکتے ہو؟”
حسن نے بٹوے سے ایک بڑا نوٹ نکالا۔
بوڑھے نے لینے سے انکار کر دیا۔
“بیٹا، میں صدقہ نہیں مانگ رہا، میں چاہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنے ہاتھوں سے کچھ دو اور خود محسوس کرو کہ اصل خوشی دینے میں ہے۔”
“کبھی کسی یتیم کو عیدی دی ہے؟ کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ہے؟”
یہ جملے حسن کے دل میں گونجنے لگے۔
“بیٹا، عید لینے کا نہیں، دینے کا تہوار ہے!”
یہ سنتے ہی حسن کے اندر کچھ بدل گیا۔
حسن تیزی سے گاڑی میں بیٹھا اور شہر کے یتیم خانے جا پہنچا۔
وہاں بچے پرانے کپڑوں میں عید کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن کسی کے پاس نئے لباس نہ تھے۔ حسن نے سب کے لئے کپڑے، جوتے، اور مٹھائیاں خریدیں، اور اپنے ہاتھوں سے پہنائے۔
جب ایک چھوٹے بچے نے خوش ہو کر کہا:
“شکریہ انکل!”
تو حسن کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
یہی وہ خوشی تھی جس کی اسے تلاش تھی۔
عید کی اذان کے ساتھ ہی حسن نے ایک فیصلہ کیا۔
وہ ایئرپورٹ پہنچا اور سیدھا بہن کے گھر پہنچ گیا۔
مریم کے دروازے پر دستک دی۔
دروازہ کھلا، اور سامنے حیران کھڑی مریم۔
“بھائی!” مریم کی آنکھوں میں خوشی اور آنسو دونوں تھے۔
حسن نے مسکراتے ہوئے کہا:
“میں سوچ رہا تھا، اس بار عید کیسے منائی جائے؟ پھر احساس ہوا کہ عید صرف نئے کپڑوں اور عیدی کا نام نہیں، بلکہ اپنوں کے ساتھ وقت گزارنے اور دوسروں کو خوش کرنے کا نام ہے۔”
حسن نے برسوں بعد دل سے سکون محسوس کیا۔
یہ باتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حقیقی خوشی دولت، کاروبار، یا شہرت میں نہیں، بلکہ محبت، اپنائیت اور دوسروں کو خوش کرنے میں ہے۔
“عید خوشیوں کو بانٹنے کا نام ہے۔ جب تک ہم اپنوں اور ضرورت مندوں کی مسکراہٹ کا سبب نہ بنیں، ہماری عید احساس کے بغیر ادھوری ہے!”
���
بٹھنڈی جموں
موبائل نمبر؛7006432002