ملک منظور
بس بس یہیں رک جائو میری منزل آگئی ۔ سفید پوش بزرگ نے موٹر سائیکل چلانے والے عادل سے کہا ۔
عادل نے بریک لگا کر موٹر سائیکل روکی اور آس پاس نظر دوڈا کر بزرگ سے کہا ۔یہ کونسی جگہ ہے یہ تو بہت ویراں ہے۔آس پاس کوئی بستی بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی گھر یا جھونپڑی ہے ۔
بزرگ نے مسکرا کر کہا۔۔یہ وہ شہر ہے جہاں آپ کے رشتے دار بھی رہتے ہیں اور پڑوسی بھی ۔تم جیسے نوجوانوں کو اس شہر کے بارے میں پتہ نہیں ہے کیونکہ آپ شور پسند کرتے ہو جو یہاں نہیں ہے ۔یاد رکھنا بیٹا کبھی کبھی جوان خوگری میں اسی جگہ کو اپنی منزل بناتا ہے ۔
عادل بزرگ کی باتوں سے دنگ رہ گیا ۔اس نے مجبوراً ہاں میں ہاں ملا کر کہا ۔اچھا چاچا مجھے دیر ہوگئی ہے ۔میرے گھر والے پریشان ہونگے ۔
بزرگ کو ہنسی آئی لیکن اس نے کچھ نہیں کہا ۔
عادل نے موٹرسائیکل کو سٹاٹ کیا اور چلا گیا ۔
گھر پہنچتے ہی جب اس نے دروازہ کھولا تو ماں کو کھانا لے کر انتظار کرتے پایا ۔
بیٹے آگئے ۔اتنی دیر تک کہا تھے ۔چلو جلدی جلدی ہاتھ دھو کر کھانا کھاؤ۔ ماں نے پیار سے کہا ۔
عادل نے ماں کے کھانے کو ٹھکراتے ہوئے کہا ۔ ماں کس دنیا کی مخلوق ہو تم۔ اتنی دیر تک کوئی بھوکا رہے گا کیا ؟
میں نے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا ۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
کچھ ہی دیر بعد ماں نے بستر بچھاتے ہوئے کہا،بیٹا جوانی کا سٹیج زندگی کا حسین ترین سٹیج ہوتا ہے ۔اس سٹیج پر قوم اور والدین دونوں کی نظریں ہوتی ہیں۔ یہی وہ سٹیج ہے جو انسان کے مقدر کو سنوارتا ہے یا بگاڑتا ہے ۔اس سٹیج پر اگر عقابی روح بیدار ہوجائے۔توپھر دیکھنا تمہاری منزل کی پرواز سب سے اونچی ہوگی۔
عادل نے ماں کی باتوں کو دقیانوسی قرار دیا اور بستر میں گھس گیا ۔رضائی کو سر پر اوڑھتے ہی اس کو سفید پوش بزرگ یاد آیا وہ کون تھا اور وہاں ویراں سی جگہ پر کیوں اترا ؟
اس نے اس ڈراؤنی جگہ کو خاموش شہر کیوں کہا ۔
اسی اثنا میں اس کو دن بھر کے سارے ایونٹس یاد آگئے۔
وہ معمول کے خلاف صبح سویرے جاگ کر گھر سے نکلا تھا ۔جب ماں نے پوچھا ۔بیٹا کہاں جارہے ہو ۔ناشتہ تو کر کے جاؤ ۔
نہیں ماں نہیں آج مجھے ایک دوست کی پارٹی میں جانا ہے ۔وہاں بہت سارے لوگ ہونگے ۔ کہتے کہتے وہ اسکوٹر لےکر چلا گیا ۔وہ ماں کی پریشانی کو پڑھ نہیں پایا۔
ماں بیچاری بیٹے کے بدلتے تیور دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔
اس کے طور طریقوں میں اچانک بدلاؤ اس کی سمجھ میں نہیں آتا ۔عادل اب پہلے سے زیادہ پیسے مانگنے لگا تھا۔ وہ عجیب حرکتیں اور بہت زیادہ غصہ کرتا تھا ۔حالانکہ عادل ماں کا لاڑلا بیٹا تو تھا لیکن وہ تابعدار بھی تھا ۔گھریلو مجبوریاں مدنظر رکھ کر ہی کام کرتا ۔کچھ دنوں سے وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا ۔ اچانک چال و چلن میں بدلاؤ دیکھ کر ماں خدا کے دربار میں دامن پھیلا کر دعا کرنے لگی۔۔۔میرے خدا تجھے تیری حلیمی کا واسطہ میرے بیٹے کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔اس کو کسی بھی قسم کی تباہی سے محفوظ رکھنا ۔اس پر ہمیشہ اپنے کرم کا سایہ رکھنا ۔۔
وہ اکثر پریشان کن انداز میں التجا کرتی رہتی ۔
عادل جب پارٹی میں پہنچا تو وہاں اس کے سارے دوست پہنچ گئے تھے ۔لڑکے لڑکیوں کے لباس ایک جیسے تھے ۔شرم و حیاء کا نام و نشان نہیں تھا ۔ شراب اور منشیات کی موجودگی نے سارے نوجوانوں کو بد مست کردیا تھا ۔
اس دن پارٹی میں ایک شریف لڑکی بھی دھوکے سے آئی تھی ۔اس بیچاری کو اپنی سہیلی نے جھوٹ بول کر پھسلایا تھا ۔اس کا تن کپڑوں میں ڈھکا ہوا تھا ۔اس لئے محفل میں وہ سب سے الگ تھی ۔بد مست نوجوانوں نے اس لڑکی کو گھیر کر چھیڑنا شروع کیا ۔اس کے کپڑوں پر پھبتیاں کسنے لگے ۔ نشے میں دھت ایک لڑکے نے اس کا دوپٹہ کھینچا ۔وہ گر گئی لیکن دوپٹے کو پکڑی رہی ۔بدذات لڑکا اس کو گھسیٹتا رہا ۔پارٹی میں سارے لڑکے تالیاں بجاتے رہے ۔عادل نے نہ جانے کیوں اس لڑکی کو ذلیل لڑکوں کے چنگل سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کی۔شاید اس کے دل میں ابھی انسانیت کا جذبہ موجود تھا ۔اس دوران دھکم دھکا اور مارا ماری بھی ہوئی ۔لیکن عادل نے لڑکی کو چھڑا کر اسے گھر جانے کو کہا ۔
پارٹی ختم ہونے کے بعد جب عادل باہر نکلا تو اس لڑکی کو زور زور سے روتے دیکھا ۔وہ اس لڑکی کے پاس گیا اور پوچھا ۔۔بہن رو مت ۔آپ کو ایسی پارٹی، جہاں ابلیس کا راج ہو میں نہیں آنا چاہیے تھا ۔لڑکی نے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا ۔۔۔میں تو سہیلی کا جنم دن منانے آئی تھی ۔مجھے کیا پتہ کہ اس نے مجھے جھانسا دیا ہے اور وہ نشہ کرتی ہے ۔
عادل نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔آجکل کے زمانے میں کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے ۔ایک لڑکی ہونے کے ناطے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا والے لڑکیوں کو ننگا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہاں معصومیت کی کوئی قدر نہیں ۔چلو میں آپ کو آپکے گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔ اسی اثنا میں اس کی آنکھ لگ گئی ۔
صبح سویرے جاگ کر وہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اسی جگہ پر پہنچا جہاں اس نے بزرگ کو چھوڑ دیا تھا ۔اس نے جب ادھر ادھر دیکھا تو وہاں قبرستان کے سوا آس پاس کوئی مکان نہیں تھا ۔وہ قبرستان کے اندر داخل ہوگیا ۔وہاں کئی تازہ قبریں دیکھ کر وہ سہم گیا، جو کئی ایسے نوجوانوں کی تھیں ،جو مستی کے عالم میں حادثے کے شکار ہوئے تھے یا کسی انہونی کی وجہ سے موت کے آغوش میں چلے گئے تھے۔اس کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوگئی۔اس کو ایسا لگا جیسا اس کے لئے بھی ایک قبر کھود کے رکھی گئی ہو۔ وہ پل بھر کے لئے کہیں کھو گیا ۔اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ جیسے تیسے ہمت جٹا کر وہ آگے بڑھنے لگا ۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔وہ آدمی کہاں ہے جو رات کو یہاں اُترا تھا ۔
ایک تازہ قبر کے پاس ایک آدمی زار و قطار رو رہا تھا ۔عادل نے پاس جاکر پوچھا ۔انکل اتنا کیوں رو رہے ہو ؟
روؤں نہیں تو اور کیا کروں ۔یہ میرے اکلوتے بیٹے کی قبر ہے ۔ آدمی نے روتے ہوئے کہا۔
جینا مرنا تو انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔یہ سب خدا کی مرضی ہے۔ عادل نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔
خدا کی مرضی ہوتی تو مجھے دکھ نہیں ہوتا ۔یہ ایک ہونہار طالب علم تھا۔ اکثر کہتا تھا ۔۔۔ابو ۔میری منزل یونیورسٹی نہیں بلکہ یونیورسٹی کا پروفیسربننا ہے۔لیکن ۔۔۔سسکیاں لیتے ہوئے ۔۔ کسی دوست نےپارٹیوں میں لے جاکر چھل دے کر اس کی صحیح منزل بدل دی ۔اس کو بھٹکا کر نشے کا عادی بنادیا۔نشے کی بُری لَت نے اس کی جان لے لی۔
اس نے میری باہوں میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
مرنے سے پہلے کہہ رہا تھا ۔۔ابو۔ مجھے بچاؤ ۔میں جینا چاہتا ہوں۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا لیکن میں کچھ نہیں کر پایا ۔بری صحبت نے اس کو اس انجام کار تک پہنچایا کہ میری دعائیں بھی اس کو محفوظ نہ رکھ سکی۔یہاں ہر جگہ،بازار میں ، میدان میں، کالج میں اور سینما گھروں میں نشیلی ادویات بیچنے والے موجود ہیں۔کہاں کہاں دھیان رکھو گے۔ آدمی نے روتے ہوئے کہا
آدمی کی باتیں سن کر عادل کا ماتھا ٹھنکا ۔
���
قصبہ کھل کولگام